Wednesday 20 June 2018

شیشے کا برگد

شیشے کا برگد

مرے آنگن کے برگد میں
کسی نے کانچ کا پیوند ڈالا ہے
جبھی تو
کرچیاں اگتی ہیں شاخوں پر
شجر کے ان بلوری مرتبانوں میں
مقید آکسیجن کا بھی
دم گھٹنے لگا ہے
ہر اک پتا بنا ہے آتشی شیشہ
تو سائے کیا اگیں گے؟
پرندوں کے گھروں کے بھید بھی
ممکن نہیں پنہاں رہیں
برگد کے سینے میں
وہ دیکھو
شہپروں سے
خون تک رِستا
دکھائی دے رہا ہے
میں باہر پھینک کر آیا ہوں
اک مردہ گلہری کو
لو
اب ایک اور زخمی ہے
جسے چاروں طرف سے
چیونٹیوں نے گھیر رکھا ہے
یہی جی چاہتا ہے
مار کر پتھر کبھی شیشے کے برگد کو
میں چکنا چُور کر ڈالوں
مگر ڈرتا ہوں آنگن میں
مِرے بچے بھی ننگے پاؤں پھرتے ہیں

 سعید دوشی

No comments:

Post a Comment