Tuesday 10 July 2018

سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر

درسِ ایام 

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدہا تبسموں سے لدے طاقچے گئے
آنکھوں کو چھیدتے ہوۓ نیزوں کے سامنے
محراب زر سے اٹھتے ہوۓ قہقہے گئے
ہر سانس لیتی کھال کھچی، لاش کے لئے
شہنائیوں سے جھڑتے ہوۓ زمزمے گئے
دامن تھے جن کے خون کے چھینٹوں سے گلستاں
وہ اطلس و حریر کے پیکر گئے، گئے
ہر کنج باغ ٹوٹے پیالوں کا ڈھیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
یہ ہات، جھریوں بھرے، مرجھاۓ ہات، جو
سینوں میں اٹکے تیروں سے رِستے لہو کے جام
بھر بھر کے دے رہے ہیں تمہارے غرور کو
یہ ہات، گلبن غمِ ہستی کی ٹہنیاں
اے کاش! انہیں بہار کا جھونکا نصیب ہو
ممکن نہیں کہ ان کی گرفتِ تپاں سے تم
تا دیر اپنی ساعدِ نازک بچا سکو
تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں
ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن یہ جان لو
اے وارثانِ طرۂ طرفِ کلاہِ کَے
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment