Monday 23 July 2018

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ بیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے، خرچہ نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرِندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
میں اک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلمکار
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment