Tuesday 9 October 2018

یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے

یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے
اب جاں پہ بنی بھی ہے تو درماں نہیں کرتے
ہر یاد کو یوں زخم بناتے نہیں دل کا
ہر تیر کو پیوستِ رگِ جاں نہیں کرتے
یہ مسٔلہ اب اہلِ محبت کا ہے اپنا
مرتے ہیں تو کچھ آپ پہ احساں نہیں کرتے
خط لائیں نہ لائیں تِرا، ہم نامہ بروں کو
بس دیکھتے رہتے ہیں پریشاں نہیں کرتے
ایسا بھی تو رکھتے نہیں خنجر پہ گلو کو
اتنا بھی تو قاتل کو پشیماں نہیں کرتے
کب شمعیں جلاتا ہے شبِ ماہ میں کوئی
تُو آۓ تو ہم گھر میں چراغاں نہیں کرتے
لوگوں کو گماں تک نہیں ہوتا جنوں کا
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں کرتے
ہم تج کے چلے آتے ہیں یارو! درِ جاناں
غالب کی طرح منتِ درباں نہیں کرتے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment