Friday 12 October 2018

خانہ بدوش

خانہ بدوش 

نا مُشت میں میری مُشتری، نا پاؤں میں نیلوفر
نا زُہرہ میری جیب میں، نا ہُما اڑے اوپر
نا دھڑکا ہے سرطان کا، نا زُحل کا کوئی ڈر
نا کوئی میرا دیس ہے نا کوئی میرا گھر
نا ماتھے چمکے چندرما، نا تارا چھنگلی پر
پر دیکھ گلوب ہے گھومتا، میری میلی انگلی پر
نا الکھ جگا سنسار میں، جب ماں کی کوکھ ہٹی
نا پستک کھولی باپ نے، جب میری ناف کٹی
نا عمل کیا رمال نے، نا دھن خیرات بٹی
نا بڑوں نے منتر تان کے، کوئی پاک زبان رٹی
میں آپ ہوں اپنا زائچہ، میں آپ ستارہ ہوں
میں آپ سمندر ذات کا، میں آپ کنارہ ہوں
مرا محد کجاوہ اُنٹ کا، مری لوری بانگِ درا
جھنکار جو چھڑکیں گھنٹیاں، تو رستی جائے ہوا
ہے اوپر گولا ڈولتا، چمکیلے سورج کا
اور اس کے اوپر آسماں، ہے گیلا نیل بھرا
مری بھور کٹی ہے کوچ میں تو سانجھ پڑاؤ میں
دن ڈھور سموں کی ٹاپ میں تو رَین الاؤ میں
ہے وقت چھنکتی چال میں، پگ لمحوں کی پائل
ہے چولا چھاؤں دھوپ کا، سر سَت رنگی آنچل
مرا مکہ چمکے آنکھ میں بہے دل میں گنگا جل
میں وایو، اگنی، سوریہ، میں بے ساحل جل تھل
مرا ساتھی صبح و شام کا، مری ماں کا کنگن ہے
ہیں تکیہ اس کی چھاتیاں، تو گود سنگھاسن ہے
میں بالا بیلے دشت کا، صحرا میں ہوا جوان
مرا جسم چھریرا سانولا، مری سیدھی تیر اٹھان
میری کالی آنکھ دراوڑی، متجسس اور حیران
مرے نیند میں ہلتے پاؤں ہیں، میرے جذبے کی پہچان
اِک مشعل راہ نورد ہےِ جو جلتی رہتی ہے
مرے ہاتھ پہ ایک لکیر ہے، جو چلتی رہتی ہے
او دبی دبی سرگوشیو! لو سنو دراوڑو دھاڑ
ہم آسمان کا پارچہ، اک پھونک سے ڈالیں پھاڑ
ہم کالے کوس اجال دیں، سنگلاخ پہاڑ پچھاڑ
ہم چلیں جو پورے پاؤں سے، تو دھرتی کھائے دراڑ
ہر اک نشیب فراز کو، ہم ٹھوکر دیتے ہیں
جو خواب خیال گمان ہے، ہم وہ کر دیتے ہیں
انگشت بدنداں راستے، دل پاش کلیجے شق
تن سم ضربوں سے نیلگوں اور چہرہ چہرہ فق
ہوں شیشہ شیشہ دھاریاں، یا ریگ کدے لق دق
میں اکبرِ اعظم راہ کا، میں منزل کا تغلق
مرا تن ہمزاد الاؤ میں دربار لگاتا ہے
ہر رستہ جسم سنبھال کے تسلیم کو آتا ہے
او مانگ بھری مری کامنی مرے ساتھ جقانی چکھ
یہ جگ تیری جاگیر ہے تُو کھل کے پاؤں رکھ
اس ورق ورق سنسار کو، تُو کھول پھرول پرکھ
رہیں سدا یہ دشت نوردیاں، ہے جیون نقش الکھ
آ پاؤں پہ مٹی باندھ لیں، آ ہوا ہتھیلی پر
آ اسمِ سم سم پھونک، اس جنم پہیلی پر
سنسار سفارت گاہ میں، مرے ڈھوڑ ڈنگر مندوب
ہیں دلدل دشتی راستے، تو تیز ہوا پاروب
ہوں اونچی شرق شمالیاں، یا گہرے غرب جنوب
انہیں ساری سمتیں ایک ہیں انہیں سب راہیں مرغوب
بے جان زمین پہ زندگی کی ٹاپ جو پڑتی ہے
تو سہمے سہمے راستوں کی سانس اکھڑتی ہے
او دھرتی کھول ہتھیلیاں، میں پاؤں سے کھینچوں ریکھ
مرے کٹے پھٹے پاپوش ہیں، پر نقش نگاری دیکھ
میں کنڈلی ہوں تاریخ کی، میں جنم جنم کا لیکھ
میں بانجھ زمین کا سنبلہ، میں زرد رتوں کا میکھ
اک خیرہ خیرہ روشنی، مری چھاؤں میں ہوتی ہے
یہ دنیا جس کا نام ہے مرے پاؤں میں ہوتی ہے
میں سنگ نہیں انسان ہوں، کیوں گھر تعمیر کروں
جب پاؤں لگے ہیں جسم کو، تو کیوں نہ چلوں پھروں
جب عجلت میں ہے زندگی، تو کاہے دھیر دھروں
میں کیسے اینٹیں جوڑ دوں، میں کیوں بنیاد بھروں
اس دھرتی کی بنیاد پر، میں جسم اٹھاتا ہوں
گھر سایہ بن کر ساتھ ہے، میں جہاں بھی جاتا ہوں
میں پِگمی، بدؔو، نیگرو میں ہوں منگول، افغان
اس صبح بحیرہ روم تھا، اس شام ہوں راجھستان
ہے سڈنی قرب و جوار میں، کبھی پہلو میں ایران
دریاۓ زرد میں کشتیاں، ڈنیوب میں کبھی پڑان
اک نقشِ پا رومانیہ، تو اک قفقاز میں ہے
اک سانس ہے مالابار میں، تو ایک حجاز میں ہے
میں شاعر ساندل بار کا، مری سوچیں خانہ بدوش
جب کرے سلیماں معجزہ، تو دنیا سے روپوش
پی ساوی بری امام کی، تو من موجی مدہوش
کبھی سارا دھارا آئینہ، کبھی پورن ماشی جوش
یہ چہرے سورج دار ہیں لشکارا ہوتے ہیں
یہ لوگ جو ہیں بے خانماں، مرا سارا ہوتے ہیں

وحید احمد

No comments:

Post a Comment