Friday 12 October 2018

ابھی لنگر نہیں ڈالا

ابھی لنگر نہیں ڈالا

تکونی بادباں کی رسیاں ڈھیلی نہیں کیں 
ابھی مستول اپنے پاؤں کے اوپر کھڑا ہے
سفینے کے بھرے سینے میں سانسوں کا ذخیرہ سرسراتا ہے
ابھی ہم ناقدانہ فاصلے سے اجنبی ساحل کے تیور دیکھتے ہیں
کھجوروں کے درختوں میں چھپی سرگوشیاں سننے کی خاطر 
ہم نے اپنے کان زندہ کر دیے ہیں
پہاڑی میں سرکتے تیر اندازوں کے کاروبار پر آنکھیں لگا دی ہیں
ہمیں تم اپنے ساحل پر پذیرائی کے کس انداز کے قابل سمجھتے ہو
یہ تم پر ہے
اگر تم تیر چھوڑو گے
تو ہم نے اپنی آنکھوں کے سوا سارا بدن 
پگھلے ہوئے لوہے کے پانی میں ڈبویا ہے
ہمارا ہاتھ ترکش کے کھلے منہ پر دھرا ہے 
کماں کی خشک اور اکڑی زباں تو مدتوں سے
تیر چکھنے کے لیے بے چین ہے
تمہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ ہم
جب اپنے تیر پہ دشمن کی بائیں آنکھ لکھتے ہیں
تو بائیں آنکھ ہوتی ہے 
کبھی ابرو نہیں ہوتا 
یہ تم پر ہے
اگر تم ہم کو سینے سے لگانے کے لیے 
ساحل پہ آ کر اپنے بازو کھول دو گے
تو ہم بھی پھڑپھڑاتے بادباں کی رسیوں کو کھول دیں گے
اور اگر تم تیر اندازوں کی ٹولی کو پہاڑی سے اتارو گے
تو ہم بھی جسم سے لپٹا ہوا لوہا گرا دیں گے
تمہارے ہر عمل کو ہم 
بڑی ایمان داری سے، بڑے انصاف سے رد عمل دیں گے 
تمہیں یہ علم ہونا چاہیے 
کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ اور دل کے بدلے دل ہمارا ضابطہ ہے 
تمہارا حُسنِ ظن ہے، سوچ کے ہر زاویے سے سوچنا
یہ ہم جو پانی پر کھڑے ہیں 
کس پذیرائی کے قابل ہیں 
مگر کچھ بھی کرو 
مد نظر رکھنا کہ ہم مد مقابل ہیں

وحید احمد

No comments:

Post a Comment