عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی
سائے سے دھوپ بنانے میں بڑی دیر لگی
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
یہ جو مجھ پہ کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
اک صدا آئی جھروکے سے کہ تم کیسے ہو؟
پھر مجھے لوٹ کے جانے میں بڑی دیر لگی
بولتا ہوں تو میرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی
میں سرِِ خاک کوئی پیڑ نہیں تھا تابشؔ
اس لیے پاؤں جمانے میں بڑی دیر لگی
عباس تابش
No comments:
Post a Comment