Tuesday 16 October 2018

عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی

عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی 
سائے سے دھوپ بنانے میں بڑی دیر لگی 
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
یہ جو مجھ پہ کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی 
اک صدا آئی جھروکے سے کہ تم کیسے ہو؟
پھر مجھے لوٹ کے جانے میں بڑی دیر لگی
بولتا ہوں تو میرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی
میں سرِِ خاک کوئی پیڑ نہیں تھا تابشؔ
اس لیے پاؤں جمانے میں بڑی دیر لگی

عباس تابش

No comments:

Post a Comment