Wednesday 30 January 2019

چشم بے خواب کو سامان بہت

چشمِ بے خواب کو سامان بہت

رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
ہر طرف چیخ سی لہراتی ہے
ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
درد کا نام سماعت کے لیے راحتِ جاں
دستِ بے مایہ کو زر
نقطۂ خاموش کو لفظ
خوابِ بیدار کو مکاں
درد کا نام میرے شہرِ خواہش کا نشاں
منزلِ رگِ رواں
درد کی راہ پر تسکین کے امکان بہت
چشمِ بے خواب کو سامان بہت

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment