Tuesday 22 January 2019

پہلے ایسا ہوتا تھا

پہلے ایسا ہوتا تھا
بھانت بھانت کے بندر
شہر کی فصیلوں پر
محفلیں جماتے تھے
گھر میں کود آتے تھے
ہاتھ میں سے بچوں کے
روٹی نوچ جاتے تھے

اب تو وہ مداری بھی
خالی ہاتھ آتا ہے
بھیک مانگ کر گھر گھر
گھر کو لوٹ جاتا ہے
اب گھروں میں چڑیوں کا
شور کیوں نہیں ہوتا
رات کو کوئی الو
پیڑ پر نہیں روتا
پیڑ پر نہیں روتا
لڑتے لڑتے چڑیاں کیوں
فرش پر نہیں گرتیں
بلیاں چھتوں پر کیوں
گھومتی نہیں پھرتیں
اب نہ کوئی بلبل ہے
اور نہ کوئی مینا ہے
اب نہ کوئی تیتر ہے
اور نہ کوئی طوطا ہے
کس سے پوچھنے جائیں
مور کیسا ہوتا ہے
ٹولیاں کبوتر کی
کھو گئیں فضاؤں میں
تتلیوں کے رنگیں پر
بہہ گئے ہواؤں میں
منہ اندھیرے اب مرغا
بانگ کیوں نہیں دیتا
گھر میں کوئی بکری کا
نام کیوں نہیں لیتا
کیا ہوئے درختوں پر
گھونسلے پرندوں کے
کوئی بھی نہیں کہتا
قصے اب درندوں کے
ننھے ننھے چوزوں پر
چیل کا جھپٹنا اب
دیکھنے کہاں جائیں
راستے میں سانڈوں کا
پہروں لڑتے رہنا اب
دیکھنے کہاں جائیں
چھپکلی کی جیتی دم
اب تھرکتی کیا پائیں
رنگ بدلتے گرگٹ کو
مارتے کہاں جائیں
گائے بھینس کا ریوڑ
اب ادھر نہیں آتا
اونٹ ٹیڑھا‌ میڑھا سا
اب نظر نہیں آتا
اب نہ گھوڑے ہاتھی ہیں
اور نہ وہ براتی ہیں
اب گلی میں کتوں کا
بھونکنا نہیں ہوتا
رات چھت پہ سوتے ہیں
بھوت دیکھ کر کوئی
چونکنا نہیں ہوتا
اب جدھر بھی جاتے ہیں
آدمی کو پاتے ہیں

محمد علوی 

No comments:

Post a Comment