Wednesday 6 February 2019

آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے

آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے 
دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے 
یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں 
تشنگی ساغرِ لبریز سے ٹکراتی ہے 
شعلۂ غم کی لپک اور مرا نازک سا مزاج 
مجھ کو فطرت کے رویے پہ ہنسی آتی ہے 
موت اک امرِ مسلّم ہے تو پھر اے ساقی 
روح کیوں زیست کے آلام سے گھبراتی ہے 
سو بھی جا اے دلِ مجروح! بہت رات گئی 
اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے 
اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ 
ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے 

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment