Friday 15 February 2019

آنکھوں میں رات کٹ گئی پلکوں پہ دن بتائیے

آنکھوں میں رات کٹ گئی پلکوں پہ دن بِتائیے
مہلت ملی ہے عمر کی دولت کہیں لٹائیے
حدِ ادب کی بات تھی، حدِ ادب میں رہ گئی
میں نے کہا کہ میں چلا، اس نے کہا کہ جائیے
مٹتے ہوۓ نشان میں منزل کی سمت ہے سو اب
بجھتے ہوئے چراغ سے، اپنا دِیا جلائیے
صورت بھی اک فریب ہے سیرت بھی اک فریب ہے
آئینہ رکھ کے سامنے، اپنی ہنسی اڑائیے
حرفِ غَلط پہ داد کی تہمت اٹھائیے تو کیوں
کوئی بھی نکتہ چیں نہیں، کس کو غزل سنائیے
ہونٹوں پہ لے کے پیاس کو آنکھوں میں رکھ کے آس کو
صحرا میں آ گئے ہیں آپ، دریا کو بھول جائیے
لکھیے ضرور شعر میں آزؔر جو دل پہ نقش ہو
لیکن جو کام کا نہیں، لکھا ہوا مٹائیے

دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment