بجھا بجھا "غمِ پنہاں" سے وہ "شباب" رہا
اک "آفتاب" پسِ پردۂ "سحاب" رہا
دھڑکتے دل کی قسم آپ کے نہ آنے سے
تمام رات "ستاروں" کو "اضطراب" رہا
انہیں "بھلا" کے تو کچھ اور ہو گئے برباد
زباں تو پھر بھی زباں ہے نگاہ تک نہ اٹھی
مگر وہ شکوہ کہ اس پر بھی کامیاب رہا
شروعِ "عشق" کی "ناکامیاں" ارے توبہ
خود اپنے دل سے مجھے مدتوں حجاب رہا
جو اٹھ گئی وہ نگاہی تو کیا کرو گے حفیظ
پناہِ جہد میں اب تک تو یہ شباب رہا
حفیظ میرٹھی
No comments:
Post a Comment