صفحات

Sunday, 5 July 2020

دسمبر آ گیا ہے

دسمبر آ گیا ہے

یہاں گوریچ چلتی ہے
تو جیسے روح چھلتی ہے
زمستاں آ کے رکتا ہے
تو اک اک رَوم دُکھتا ہے
تعجب ہے مجھے پل پل
کہ اب کے سال وادی میں
ہماری شال وادی میں

سنہری دھوپ اب تک پربتوں پر رقص کرتی ہے
ابھی تک سانس کی حدت لبوں کو گرم رکھتی ہے
رگوں میں خون کا دوران اب تک ہے دوپہروں سا
خزاں کے زرد چہرے پر شرارت اب بھی باقی ہے
ابھی پتوں نے اپنے اطلسی جامے نہیں بدلے
سسکتی اور ڈرتی شامیں اب تک مسکراتی ہیں
کیوں اب تک تتلیاں پھولوں پہ آ کے کھِلکھلاتی ہیں
ابھی نیلاہٹیں بادل کے دھوکے میں نہیں آئیں
ابھی تک ندیاں کُہرے کے قبضے میں نہیں آئیں
گزشتہ سب مہینوں کو
یہاں سارے مکینوں کو
عجب یہ فکر لاحق ہے
یہ اپنے سرد لہجے میں ابھی تک کیوں نہیں بولا
یہ اس بے درد لہجے میں ابھی تک کیوں نہیں بولا
دسمبر آ گیا ہے کیا؟

انجیل صحیفہ

No comments:

Post a Comment