جو کوہ قافِ غزل کی پری نہ لے جائے
محال ہے کہ کوئی بھی خزینہ لے جائے
ہم ایسے بھٹکے ہوؤں کو یہ خوف رہتا ہے
یہ گمرہی بھی تِری سمت ہی نہ لے جائے
ہم ایک موج میں آئے ہوئے ہیں مدت سے
اس ایک شخص کا اتنا بھی غم نہیں کرنا
وہ ایک پھول کہیں باغ ہی نہ لے جائے
میں اپنے کمرے کے ملبے تلے نہ دب جاؤں
یہ میرا ڈر ہی مِری زندگی نہ لے جائے
اسے میں پیار سے سمجھانا چاہتا ہوں مگر
وہ میری بات کہیں اور ہی نہ لے جائے
تری تلاش میں جن وادیوں سے ہم گزرے
خدا وہاں کسی دشمن کو بھی نہ لے جائے
راز احتشام
No comments:
Post a Comment