اس کی نہیں خدائی کہ اس کا خدا نہیں
تم جس کو مل گئے اسے پھر کیا ملا نہیں
سجدہ سے سر اٹھانے کو جی چاہتا نہیں
اب یا تو ہم نہیں در دلدار!، یا نہیں
اک "پیکر خیال" کی اللہ رے محویت
محشر نثار اس "نگہِ شرمسار" پر
"کہنا پڑا خدا سے "یہ قاتل مِرا نہیں
وہ تنکے جب اٹھائے جلا ڈالے برق نے
گلشن میں آشیاں کبھی اپنا "بنا" نہیں
درکار ہے نگاہِ کرم، ورنہ اے کریم
میرے لیے خزانۂ قدرت میں کیا نہیں
نظریں جدا جدا ہیں،۔ خیالات مختلف
میری نظر سے کوئی انہیں دیکھتا نہیں
تُو ہی بتا کہ جائے کہاں تجھ کو چھوڑ کر
افقر تِرا گدا ہے کسی کا "گدا" نہیں
افقر موہانی وارثی
No comments:
Post a Comment