صفحات

Tuesday, 7 July 2020

یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں

یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ "سہہ" جاتے ہیں
ہاں کبھی بات جو کہنے کی ہے کہہ جاتے ہیں
نہ چٹانوں کی صلابت ہے، نہ دریا کا جلال
لوگ تنکے ہیں جو ہر موج میں بہہ جاتے ہیں
"یہ نئی "نسل" ہے اس واسطے "خالی خالی
درد جتنے ہیں وہ باتوں ہی میں بہہ جاتے ہیں
آمد آمد" کسی "خورشیدِ جہاں تاب" کی ہے"
پیشوائی کے لیے "انجم" و "مہ" جاتے ہیں
زندگی بن گئی "دیوانوں" کی اک "دوڑ" سرور
ہم سے کتنے ہیں جو اس دوڑ میں رہ جاتے ہیں

آل احمد سرور

No comments:

Post a Comment