صفحات

Tuesday, 7 July 2020

اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم

اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم
خود کو سمیٹتے ہیں یہاں سے وہاں سے ہم
کیا جانے کس جہاں میں ملے گا ہمیں سکون
ناراض ہیں زمیں سے، خفا آسماں سے ہم
اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس
لینے لگے ہیں کام "یقیں" کا "گماں" سے ہم
لیکن ہماری آنکھوں نے کچھ "اور" کہہ دیا
کچھ "اور" کہتے رہ گئے اپنی "زباں" سے ہم
آئینے سے "الجھتا" ہے جب بھی ہمارا عکس
ہٹ جاتے ہیں بچا کے نظر درمیاں سے ہم
ملتے نہیں ہیں اپنی "کہانی" میں "ہم" کہیں
غائب ہوئے ہیں جب سے تری داستاں سے ہم
غم بک رہے تھے میلے میں خوشیوں کے نام پر
مایوس ہو کے لوٹے ہیں ہر اک دکاں سے ہم

راجیش ریڈی

No comments:

Post a Comment