صفحات

Monday, 6 July 2020

مسکراتا بھی ہوں اور آنکھ بھی نم رکھتا ہوں

مسکراتا بھی ہوں اور آنکھ بھی نم رکھتا ہوں
اب مسرت میں اداسی کو بھی ضم رکھتا ہوں
پوچھتے کیا ہو "مِری" تنگئ داماں کا سبب
دینے والے کی سخاوت کا بھرم رکھتا ہوں
یوں تِرے "ہجر" میں کرتا ہوں علاجِ بسمل
دلِ بے کل پہ "تِری" یاد کا "دم" رکھتا ہوں
جس کو تُو چھوڑے مِرا اس سے تعلق کیسا
اس لیے خود سے بھی اب رابطہ کم رکھتا ہوں
بڑھ کے "منزل" مجھے سینے سے لگا لیتی ہے
میں کہ جس راہ پہ دو چار "قدم" رکھتا ہوں
جھلملانے لگے قرطاس پہ لفظوں کے دِیے
تیرگی چھٹنے لگی، اب میں "قلم" رکھتا ہوں

اطیب جاذل​

No comments:

Post a Comment