اندر کی بات بات سے "آگے" کی چیز ہے
عشق ان کے التفات سے آگے کی چیز ہے
اس بار غم کی "رات" میں جانے ہے کیا مگر
کچھ ہے جو غم کی رات سے آگے کی چیز ہے
راہِ "فرار" عشق کو "سمجھے" چلا ہے کوئی
ہم "وارداتِ قلب" سمجھتے تھے "عشق" کو
یہ "فتنہ" واردات سے "آگے" کی چیز ہے
عہدِ "کہن" کے "پوچھیۓ" مُلا سے معجزے
جو خود "عجائبات" سے "آگے" کی چیز ہے
راحیل ہارے ہی نہیں، مارے بھی ہم گئے
دل کی شکست "مات" سے آگے کی چیز ہے
راحیل فاروق
No comments:
Post a Comment