صفحات

Wednesday, 8 July 2020

جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی

جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی
آئے ہیں اس کی سمت سے پتھر کبھی کبھی
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا ❌نہ ہو سکا
یوں بھی ہوا حساب❤ برابر کبھی کبھی
یاں تشنہ کامیاں تو مقدر ہیں زیست میں
ملتی ہے حوصلے کے برابر کبھی کبھی
آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں
دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی
منزل کی جستجو میں جسے چھوڑ آئے تھے
آتا ہے یاد کیوں وہی 🌸منظر کبھی کبھی
مانا یہ زندگی ہے فریبوں🍭 کا سلسلہ
دیکھو کسی فریب کے جوہر کبھی کبھی
یوں تو نشاط کار🍷 کی سرشاریاں ملیں
انجام کار💥 کا بھی رہا ڈر کبھی کبھی
دل کی جو بات تھی وہ رہی دل میں اے سرور
کھولے ہیں گرچہ شوق کے دفتر کبھی کبھی

آل احمد سرور

No comments:

Post a Comment