صفحات

Tuesday, 1 September 2020

عشق جس سمت بھی لے جائے ادھر جانا ہے

حکمِ مرشد پہ ہی جی اٹھنا ہے، مر جانا ہے
عشق جس سمت بھی لے جائے ادھر جانا ہے
میری بینائی تِرے قرب کی مرہون ہے دوست
ہاتھ چھڑوا کے بھلا تجھ سے کدھر جانا ہے؟
اسکی چھاؤں میں بھی تھک کر نہیں بیٹھا جاتا
تُو نے جس پیڑ کو پھلدار شجر جانا ہے
ہوئے خدشات کہ پہچان نہیں پایا تجھے
میں سمجھتا تھا کہ تُو نے بھی بچھڑ جانا ہے
لڑکھڑاتا ہوں تو وہ رو کے لپٹ جاتا ہے
میں نے گرنا ہے تو اس شخص نے مر جانا ہے
خشک مشکیزہ لیے خالی پلٹنا ہے اسے
اور دریاؤں کا شیرازہ بکھر جانا ہے

راکب مختار

No comments:

Post a Comment