صفحات

Tuesday, 2 August 2022

پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں

 پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں

شیشے کے ہیں دروازے پتھر کی دکانوں میں

کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو

کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں

بس ایک ہی ٹھوکر سے گر جائیں گی دیواریں

آہستہ ذرا چلیے شیشے کے مکانوں میں

اللہ رے مجبوری، بکنے کے لیے اب بھی

سامانِ تبسم ہے اشکوں کی دُکانوں میں

آنے کو ہے پھر شاید طوفان نیا کوئی

سہمے ہوئے بیٹھے ہیں لوگ اپنے مکانوں میں

شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغر

پرواز نہ کھو جائے ان اونچی اڑانوں میں


ساغر اعظمی

No comments:

Post a Comment