افسردگئ کون و مکاں دیکھتے رہنا
بجھتے ہوئے تاروں کا دھواں دیکھتے رہنا
جاتے ہوئے کہتے ہو نشاں دیکھتے رہنا
اب ہم کو میسر ہے کہاں دیکھتے رہنا
میں ایک جگہ پر کبھی رہتی ہی نہیں ہوں
سو آج جہاں پر ہوں وہاں دیکھتے رہنا
سو رنگ بھی برسات کے آئینے میں آئیں
چہروں پہ وہی رنگ خزاں دیکھتے رہنا
سب پیاسے پلٹ آئیں گے صحراؤں سے اک دن
گاؤں میں کوئی گہرا کنواں دیکھتے رہنا
کائنات احمد
No comments:
Post a Comment