صفحات

Thursday, 1 September 2022

تھی ان کے در پہ لٹانی سنبھال کر رکھی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


تھی ان کے در پہ لٹانی، سنبھال کر رکھی

متاعِ اشک پرانی سنبھال کر رکھی

کہ ایک دن اسے آقاؐ کی نعت ہونا تھا

غزل نے اپنی جوانی سنبھال کر رکھی

وہ نعت جس سے مہکتی ہے شب کی تنہائی

وہ نعتﷺ رات کی رانی سنبھال کر رکھی

حضورؐ آپ کی مِدحت کے واسطے میں نے

یہ حرف حرف روانی سنبھال کر رکھی

ظہیر! ریشِ مبارک کا احترام کیا

حضورؐ کی یہ نشانی سنبھال کر رکھی


ثناء اللہ ظہیر

No comments:

Post a Comment