صفحات

Friday, 2 September 2022

مری دستار عفت قصر سلطانی نہ جائے گی

 مِری دستارِ عِفت قصرِ سلطانی نہ جائے گی

مِرے عزمِ مصمّم کی یہ تابانی نہ جائے گی

چلو بچنے کا ہم کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈیں

ہوا اب کے برس اے دوست طوفانی نہ جائے گی

یقیناً سر جھکا سکتے نہیں ہم ظلم کے آگے

یہاں بیٹھے ہوئے لیکن پریشانی نہ جائے گی

تمہیں خود ہی سنبھل کر ہر قدم چلنا پڑے گا اب

غلاظت ڈالنے والوں کی من مانی نہ جائے گی

شبِ ہجراں سے کہہ دو اور کچھ سنگین ہو جائے

مِری بے تاب ان آنکھوں کی طغیانی نہ جائے گی

اگر آتے رہے احباب میرے سب سدا یوں ہی

کبھی بزمِ سخن کی دوست تابانی نہ جائے گی

اگر ظلم و ستم کی آندھیاں چلتی رہیں یوں ہی

مرے اپنوں سے میری شکل پہچانی نہ جائے گی

مرے گھر میں ہے دولت بھائی چارے کی ابھی صوفی

مرے گھر سے کبھی ان کی فراوانی نہ جائے گی


صوفی بستوی

No comments:

Post a Comment