صفحات

Monday, 5 September 2022

چراغ میں نے جلایا صدا فقیر نے دی

 چراغ میں نے جلایا صدا فقیر نے دی

یونہی بھرا رہے کاسہ دعا فقیر نے دی

یہاں نہ فصل ہوئی اور نہ آسماں برسا

یہ میرے شہر کو کیا بد دعا فقیر نے دی

بنے بنائے ہوئے دو جہاں خدا نے دئیے

اور ان کو شکل یہاں خوشنما فقیر نے دی

یہ لوگ توڑتے پھرتے تھے ہر کسی کا دل

پھر ان کو ایک دن اس کی سزا فقیر نے دی

یہ عشق یوں بھی مِرے خون میں دہکتا تھا

اسے کچھ اور زیادہ ہوا فقیر نے دی

وگرنہ کس کے یہاں خدوخال روشن تھے

اس آئینے کو بھی ساری ضیا فقیر نے دی


قمر رضا شہزاد

No comments:

Post a Comment