صفحات

Tuesday, 6 September 2022

مغالطہ ہے عروج و زوال تھوڑی ہے

 مغالطہ ہے، عروج و زوال تھوڑی ہے

ہماری آنکھ کے شیشہ میں بال تھوڑی ہے

ہمارے دل میں کبوتر نماز پڑھتے ہیں

ہمارے دل میں تعصّب کا جال تھوڑی ہے

لبادہ برف کا اوڑھے ہوئے ہے جوالا مُکھی

زمیں کے لاوے میں اب کے اُبال تھوڑی ہے

ہیں ہم حسینیؑ، ہمیں سر کٹانا آتا ہے

ہمارے پاس یزیدانہ چال تھوڑی ہے

مِرے حبیبؐ کی تمثیل ڈھونڈنے والو

وہ بے مثال ہے اس کی مثال تھوڑی ہے

بروز عید بھی روزے کے جیسی حالت ہے

امیرِ شہر سے لیکن سوال تھوڑی ہے

ازل سے چاند میں چرخہ چلا رہی ہے مگر

نواز! اب بھی وہ بُڑھیا نِڈھال تھوڑی ہے


نواز عصیمی

No comments:

Post a Comment