شام کی اداسی نے جب رُلا دیا سب کو
ہم بھی اپنے حصے کے رنج و غم ٹھا لائے
رات کے مسافر تھے، اِذن خواب ملتے ہی
رہگزارِ ہستی کے پیچ و خم اٹھا لائے
آسمانِ ہجراں کے شبنمی ستارے بھی
جھلملوں کی بستی سے چشمِ نم اٹھا لائے
باپ کی وراثت سے ہم نے کیا نہیں پایا
درد کی تجوری سے مُؤقلم اٹھا لائے
خامشی کے دریا میں اک عجب تلاطم تھا
ہم بھی اس تلاطم کے زیر و بم اٹھا لائے
فطرت سوہان
No comments:
Post a Comment