خود ہی اپنا راز خود ہی راز داں بن جاؤں گا
ایک لمحے کا یقیں ہوں پھر گماں بن جاؤں گا
حرف کی صورت زباں پر ایک بار آنے تو دو
دیکھتے ہی دیکھتے میں داستاں بن جاؤں گا
ابتدا میں اک علامت تھا گزرتے وقت کی
انتہا تک اگلے وقتوں کا نشاں بن جاؤں گا
جب تراشا جا رہا تھا ذہن میں میرا بدن
کس نے سوچا تھا کہ میں سونا مکاں بن جاؤں گا
ہوتے ہوتے وہم میں تحلیل ہو جاؤ گے تم
اور میں بھی ایک سعیٔ رائیگاں بن جاؤں گا
حیرت ایسا ہی مشیت کا ہے شاید قاعدہ
جھلملاتی لو سے ابھرا ہوں دھواں بن جاؤں گا
بلراج حیرت
No comments:
Post a Comment