صفحات

Saturday, 13 December 2025

خلوص التجا تو ہے اثر نہیں نہیں سہی

 خلوص التجا تو ہے اثر نہیں، نہیں سہی

انہیں ہمارے حال کی خبر نہیں، نہیں سہی

اِدھر بھی ضبط مدعا سے گنگ ہے مِری زباں

اُدھر بھی پُرسشِ الم اگر نہیں، نہیں سہی

جنون تو ہے، یہی بہت ہے کاروانِ شوق کو

رہِ طلب میں کوئی راہبر نہیں، نہیں سہی

یہ کم نہیں تِری طلب میں زندگی بسر ہوئی

تِرے حریمِ ناز میں گزر نہیں، نہیں سہی

بہت ہے روشنی چراغ جل رہے ہیں یاد کے

مِری شبِ فراق کی سحر نہیں، نہیں سہی

شہید ناوک نظر تو ہو گیا غریب وہ

نیاز پر نوازشِ نظر نہیں، نہیں سہی


نیاز گلبرگوی

No comments:

Post a Comment