دل کے برباد جزیروں کی خبر لے کوئی
کاش بے حال فقیروں کی خبر لے کوئی
کیوں جلا ان کے چراغوں میں غریبوں کا لہو
میری بستی کے "امیروں" کی خبر لے کوئی
خوں گری عام ہے اور حرفِ ملامت بھی نہیں
جانے کس حال میں ہیں زِندہ بھی ہیں یا مر گئے
ہجر کے مارے "اسیروں" کی خبر لے کوئی
کس نے پیغامِ محبت میں "ملاوٹ" کی ہے؟
عشق کے سارے سفیروں کی خبر لے کوئی
میری قسمت میں کہیں وصل لکھا ہے کہ نہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں کی خبر لے کوئی
آج کیوں مجھ کو "ستانے" نہیں آئے باقر؟
بچے کس کے تھے شریروں کی خبر لے کوئی
مرید باقر انصاری
No comments:
Post a Comment