صفحات

Wednesday, 8 July 2020

دل کے برباد جزیروں کی خبر لے کوئی

دل کے برباد جزیروں کی خبر لے کوئی
کاش بے حال فقیروں کی خبر لے کوئی
کیوں جلا ان کے چراغوں میں غریبوں کا لہو
میری بستی کے "امیروں" کی خبر لے کوئی
خوں گری عام ہے اور حرفِ ملامت بھی نہیں
ہیں کہاں "مردہ" ضمیروں کی خبر لے کوئی
جانے کس حال میں ہیں زِندہ بھی ہیں یا مر گئے
ہجر کے مارے "اسیروں" کی خبر لے کوئی
کس نے پیغامِ محبت میں "ملاوٹ" کی ہے؟
عشق کے سارے سفیروں کی خبر لے کوئی
میری قسمت میں کہیں وصل لکھا ہے کہ نہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں کی خبر لے کوئی
آج کیوں مجھ کو "ستانے" نہیں آئے باقر؟
بچے کس کے تھے شریروں کی خبر لے کوئی

مرید باقر انصاری

No comments:

Post a Comment