صفحات

Wednesday, 8 July 2020

خول چہروں پہ چڑھائے ہوئے آ جاتے ہیں

خول چہروں پہ چڑھائے ہوئے آ جاتے ہیں
لوگ "کرتوت" چھپائے ہوئے آ جاتے ہیں
گھر سے نکلے کوئی عورت تو ہوس کے پیکر
ہر طرف "گھات" لگائے ہوئے آ جاتے ہیں
جب بھی یاروں کی عنایات کا چرچا ہو تو ہم
زخم سینوں پہ سجائے ہوئے آ جاتے ہیں
کام کرنے پہ انہیں موت نظر آتی ہے کیا ؟
وہ جو "کشکول" اٹھائے ہوئے آ جاتے ہیں
میری محفل میں مِرے نعرے لگاتے ہوئے لوگ
نفرتیں دل میں "چھپائے" ہوئے آ جاتے ہیں
میں زمانے کا ستایا ہوں، مرے در پہ یونہی
سب زمانے کے "ستائے" ہوئے آ جاتے ہیں
روز باقر میری مرقد پہ مِرے ہی قاتل
شکل "معصوم" بنائے ہوئے آ جاتے ہیں

مرید باقر انصاری

No comments:

Post a Comment