شام ڈھلتے ہوئے سائے سے سمجھ آئی ہے
زندگی زہر ہے، 'پینے' سے سمجھ آئی ہے
خواب مسمار بھی کر دیتی ہے غربت اکثر
آج اس شہر کے 'ملبے' سے سمجھ آئی ہے
ساتھ زنداں میں کوئی اور بھی رہتا ہو گا
پیار 'مُٹھی' میں پڑا 'ریت' سا ایسا رشتہ
جو شب و روز بکھرنے سے سمجھ آئی ہے
ہم سے مجبور تو کھل کر بھی نہیں رو سکتے
شدتِ درد میں 'ہنسنے' سے سمجھ آئی ہے
خول اتنے ہیں کہ کھو جاتے ہیں اصلی چہرے
وقت' کی 'گرد' اترنے سے سمجھ آئی ہے'
میں تو سمجھی تھی محبت میں سکوں ہے فوزی
یہ 'اذیت' تو 'گزرنے' سے 'سمجھ' آئی ہے
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment