صفحات

Monday, 6 July 2020

تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا

تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے
مگر پھر آرزوؤں کا "بکھرنا" بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
بتاؤ! "یاد" ہے تم کو وہ جب "دل" کو چرایا تھا؟
چرائی "چیز" کو تم نے "خدا کا گھر" بنایا تھا
وہ جب کہتے تھے میرا نام تم تسبیح میں پڑھتے ہو
محبت کی نمازوں کو قضا کرنے سے ڈرتے ہو
مگر اب یاد آتا ہے، وہ باتیں تھیں، محض باتیں
کہیں باتوں ہی باتوں میں مُکرنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
وہی ہیں صورتیں اپنی، وہی میں ہوں، وہی تم ہو
مگر کھویا ہوا ہوں میں، مگر تم بھی کہیں گم ہو
محبت میں دغا کی تھی، سو کافر تھے سو کافر ہیں
ملی ہیں منزلیں پھر بھی مسافر تھے، مسافر ہیں
تیرے دل کے نکالے ہم کہاں بھٹکے، کہاں پہنچے
مگر بھٹکے تو"یاد" آیا، بھٹکنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا

خلیل الرحمان قمر

No comments:

Post a Comment