خود میں گم ہے کوئی خدا میں ہے گم
میرا ہونا کہیں خلا میں ہے گم
سانس بے رنگ کانچ کی تتلی
گھاس پر تیرتی ضیا میں ہے گم
رقص کرتی یہ "سندری" مٹی
چاند اوڑھے وہ "اپسرا" لڑکی
دودھیا سی کسی فضا میں ہے گم
خاک پر خاک ڈال کر سیکھا
ساری مستی اسی فنا میں ہے گم
میں کہیں گم ہوں تیری آنکھوں میں
تو مگر اور ہی "ہوا" میں ہے گم
وہ فرشتہ،۔ وہ پارسا صوفی
آئینہ بھی تیری حیا میں ہے گم
آسماں جھک رہا ہے، ہاتھ اٹھا
سنگ تیرے کوئی دعا میں ہے گم
سارا عالم "طواف" میں کیوں ہے
لا' کا ہر ورد کیوں 'الا' میں ہے گم'
چاند، سورج، شفق، دِیا، جگنو
ایک قندیل کی "ادا" میں ہے گم
قندیل بدر
No comments:
Post a Comment