صفحات

Sunday, 5 July 2020

خود میں گم ہے کوئی خدا میں ہے گم

خود میں گم ہے کوئی خدا میں ہے گم
میرا ہونا کہیں خلا میں ہے گم
سانس بے رنگ کانچ کی تتلی
گھاس پر تیرتی ضیا میں ہے گم
رقص کرتی یہ "سندری" مٹی
چاک پر گھومتی سزا میں ہے گم
چاند اوڑھے وہ "اپسرا" لڑکی
دودھیا سی کسی فضا میں ہے گم
خاک پر خاک ڈال کر سیکھا
ساری مستی اسی فنا میں ہے گم
میں کہیں گم ہوں تیری آنکھوں میں
تو مگر اور ہی "ہوا" میں ہے گم
وہ فرشتہ،۔ وہ پارسا صوفی
آئینہ بھی تیری حیا میں ہے گم
آسماں جھک رہا ہے، ہاتھ اٹھا
سنگ تیرے کوئی دعا میں ہے گم
سارا عالم "طواف" میں کیوں ہے
لا' کا ہر ورد کیوں 'الا' میں ہے گم'
چاند، سورج، شفق، دِیا، جگنو
ایک قندیل کی "ادا" میں ہے گم

قندیل بدر

No comments:

Post a Comment