تجھ کو آتی ہے اگر کاریگری سنگ تراش
میرا چہرہ، مِرا پیکر، مِرا کوئی انگ تراش
یا تو پانی سے کوئی "شیشہ" بنا میرے لیے
یا تو آئینے سے یہ دھول ہٹا، زنگ تراش
میرے آنچل کو بنانے کے لیے گھول دھنک
تیرے ہاتھوں میں کئی سُر ہیں یہ دعویٰ ہے ترا
چل کوئی ساز ہی لکڑی سے بنا، چنگ تراش
کورے کاغذ پہ بھی کاڑھے ہیں شجر، پھول، ثمر
شعر کہنا ہے تو کچھ ذائقہ، کچھ ڈھنگ تراش
میں بناؤں گی "کُھلا" اور "وسیع" ایک جہان
میں نہیں قید، گھٹن، قبر، قفس، تنگ تراش
قندیل بدر
No comments:
Post a Comment