صفحات

Saturday, 4 July 2020

تجھے ملا تو محبت سے آشنا ہوا میں

تھا خود سے دور کسی دشت میں پڑا ہوا میں
تجھے ملا تو "محبت" سے "آشنا" ہوا میں
نکل پڑا ہوں کسی بے نشان "منزل" کو
فنا کے دشت میں سائے کو ہانکتا ہوا میں
تمہیں خبر بھی ہے کن جنگلوں میں جا نکلا
تمہارے بارے پرندوں سے پوچھتا ہوا میں
خود اپنے آپ کو رستے میں بھول آیا ہوں
کسی کے "نقشِ کفِ پا" کو ڈھونڈتا ہوا میں
اسے بچاؤ، یہ ساحل پہ چیختی ہوئی وہ
مجھے بچاؤ، یہ دریا میں ڈوبتا ہوا میں
پھر ایک موڑ پہ آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا
کہ چل پڑا تھا یونہی خواب دیکھتا ہوا میں
وہ لمحہ لمحہ زمانے کی "بھیڑ" میں بے خود
یہ دورِ حبس کے صدمات جھیلتا ہوا میں

ذیشان مرتضیٰ

No comments:

Post a Comment