تھا خود سے دور کسی دشت میں پڑا ہوا میں
تجھے ملا تو "محبت" سے "آشنا" ہوا میں
نکل پڑا ہوں کسی بے نشان "منزل" کو
فنا کے دشت میں سائے کو ہانکتا ہوا میں
تمہیں خبر بھی ہے کن جنگلوں میں جا نکلا
خود اپنے آپ کو رستے میں بھول آیا ہوں
کسی کے "نقشِ کفِ پا" کو ڈھونڈتا ہوا میں
اسے بچاؤ، یہ ساحل پہ چیختی ہوئی وہ
مجھے بچاؤ، یہ دریا میں ڈوبتا ہوا میں
پھر ایک موڑ پہ آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا
کہ چل پڑا تھا یونہی خواب دیکھتا ہوا میں
وہ لمحہ لمحہ زمانے کی "بھیڑ" میں بے خود
یہ دورِ حبس کے صدمات جھیلتا ہوا میں
ذیشان مرتضیٰ
No comments:
Post a Comment