صفحات

Friday, 3 July 2020

اب اسیری کی یہ تدبیر ہوئی جاتی ہے

اب اسیری کی یہ "تدبیر" ہوئی جاتی ہے
ایک خوشبو مِری "زنجیر" ہوئی جاتی ہے
اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک وحشت ہے کہ "تعبیر" ہوئی جاتی ہے
اس کی پوشاک نگاہوں کا عجب ہے یہ فسوں
خوش بیانی مری "تصویر" ہوئی جاتی ہے
اب وہ دیدار میسر ہے نہ قربت نہ سخن
اک جدائی ہے جو "تقدیر" ہوئی جاتی ہے
ان کو اشعار نہ سمجھیں کہیں دنیا والے
یہ تو حسرت ہے جو "تحریر" ہوئی جاتی ہے

عنبرین حسیب عنبر

No comments:

Post a Comment