صفحات

Wednesday, 2 September 2020

ریت پر اک نشان ہے شاید

ریت پر اک نشان ہے شاید 
یہ ہمارا مکان ہے شاید 
شور کے بیچ سو رہی ہے زمیں 
مدتوں کی تھکان ہے شاید 
درد کا اشتہار چسپاں ہے 
زندگی کی دُکان ہے شاید 
تنہا تنہا نکل پڑے پنچھی 
عہدِ نو کی اڑان ہے شاید 
"عقل کہتی ہے "مر چکا رشتہ 
"شوق کہتا ہے "جان ہے شاید 
وہ جہاں پر پگھل رہی ہے دھوپ 
ہاں وہیں سائبان ہے شاید 
آج وہ مسکرا کے ملتے ہیں 
آج پھر امتحان ہے شاید 

مظفر ابدالی

No comments:

Post a Comment