ریت پر اک نشان ہے شاید
یہ ہمارا مکان ہے شاید
شور کے بیچ سو رہی ہے زمیں
مدتوں کی تھکان ہے شاید
درد کا اشتہار چسپاں ہے
تنہا تنہا نکل پڑے پنچھی
عہدِ نو کی اڑان ہے شاید
"عقل کہتی ہے "مر چکا رشتہ
"شوق کہتا ہے "جان ہے شاید
وہ جہاں پر پگھل رہی ہے دھوپ
ہاں وہیں سائبان ہے شاید
آج وہ مسکرا کے ملتے ہیں
آج پھر امتحان ہے شاید
مظفر ابدالی
No comments:
Post a Comment