عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
میں اپنی ذات میں تنہا
میں اپنی ذات میں تنہا
سبھی ہیں دوست میرے پر
نہیں ہے چارہ گر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں
یہاں ہر سمت ویرانی
گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم
کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم
یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے
خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم
دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے
خیانت کے علمبردار ہیں ہم
کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی
کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی
آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی
اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی
اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو
بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو
رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے
لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے
لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے
بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں
گُزری تھی کہاں اپنی وہ شب پوچھ رہے ہیں
کب تک میں چھپاؤں گا زمانے کی نظر سے
اب لوگ اُداسی کا سبب پوچھ رہے ہیں
کیا تم پہ بھی گزرا تھا یونہی نزع کا عالم
ہم لوگ جو ہیں جان بہ لب پوچھ رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حرف کب معتبر نہیں ہوتا
مدح میں صَرف گر نہیں ہوتا
داغِ ہجراں کسے دکھاتے گر
تجھ سا خیرالبشر نہیں ہوتا
دل کو اعزاز ہے تِری آمد
ہر کسی کا یہ گھر نہیں ہوتا