مِرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے
تِری مہک ہے جو مجھ کو غلاف کرتی ہے
صدائے عشق لگانے سے پیشتر سُن لو
کہ یہ بھی سینوں میں گہرے شگاف کرتی ہے
میں چشمِ نم سے اسی واسطے گریزاں ہوں
مِرے غموں کا بھی یہ انکشاف کرتی ہے
مِرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے
تِری مہک ہے جو مجھ کو غلاف کرتی ہے
صدائے عشق لگانے سے پیشتر سُن لو
کہ یہ بھی سینوں میں گہرے شگاف کرتی ہے
میں چشمِ نم سے اسی واسطے گریزاں ہوں
مِرے غموں کا بھی یہ انکشاف کرتی ہے
دبستان اردو
وہ شیرینی میں دکنی کی زبان ریختہ جیسی
حزیں ایسی کہ جیسے میر کا دیوان کھل جائے
دقیق اتنی کہ گویا مصرعۂ غالب کا اک مضموں
طہارت میں ہے وہ اقبال کی بانگِ درا جیسی
اداسی میں وہ یاسیت زدہ ساحر کی نظموں کا حسیں پرتو
کہ ناصر کاظمی کی یاس میں ڈوبی غزل کی عکس ریزی ہے
تم تھے، اب نہیں ہو
مکڑی کے جالوں کے اس پار
دیکھنے والی تمہاری آنکھیں بینائی سے محروم ہوں گی
اور بھیڑیے ہوں گے
بھیڑیے کے ہاتھوں میں تمہارے لیے
کمزور بوسیدہ لکڑی سے بنے کافن ہوں گے
جنگل میں دور تک خون پھیلا ہو گا
یہ دل کا انکشاف ہے یہ عین شین قاف ہے
جو کعبے پر غلاف ہے یہ عین شین قاف ہے
تھی ارنی ضد کسی کی اور ملنے کو گیا کوئی
سو بات صاف صاف ہے یہ عین شین قاف ہے
مِری خرد کی ہو گئی جنون سے مصالحت
ہر اک خطا معاف ہے یہ عین شین قاف ہے
اس لیے بھی وه مجھے دل سے نہیں ملتی ہے
اس کی مشکل مِری مشکل سے نہیں ملتی ہے
وقت تسلیم بھی کرتا ہے نہیں بھی ہم کو
داد ملتی ہے مگر دل سے نہیں ملتی ہے
تُو ابھی ہجر کی بھٹی میں نہیں ٹھیک پکا
تیری تصویر ابھی سِل سے نہیں ملتی ہے
دل چاک جگر چاک گریباں دریدہ
یہ لوگ وہ ہیں جن کے ہیں ارمان دریدہ
کیا فائدہ جنگل میں درندوں کی کریں کھوج
انسان ہے اس شہر میں انسان دریدہ
چہرہ تو ہے کچھ اور، دکھاتا ہے وہ کچھ اور
اس دور میں ہر شخص ہے پہچان دریدہ
تو پهر تم یہ سمجهتی ہو
کہ میں جهوٹا، فریبی اور دهوکے باز یعنی اس طرح کا اور کیا کچھ ہوں
تمہاری بے قراری نے مجهے مجبور کر ڈالا
کہ میں وہ ساری باتیں تم سے کہہ دوں
جو مجهے مرشد نے کہنے سے بڑے دن ہو گئے تهے، روک رکها تها
وہ کہتے ہیں