Saturday 27 April 2024

مرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے

 مِرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے

تِری مہک ہے جو مجھ کو غلاف کرتی ہے

صدائے عشق لگانے سے پیشتر سُن لو

کہ یہ بھی سینوں میں گہرے شگاف کرتی ہے

میں چشمِ نم سے اسی واسطے گریزاں ہوں

مِرے غموں کا بھی یہ انکشاف کرتی ہے

وہ شیرینی میں دکنی کی زبان ریختہ جیسی

 دبستان اردو


وہ شیرینی میں دکنی کی زبان ریختہ جیسی

حزیں ایسی کہ جیسے میر کا دیوان کھل جائے

دقیق اتنی کہ گویا مصرعۂ غالب کا اک مضموں

طہارت میں ہے وہ اقبال کی بانگِ درا جیسی

اداسی میں وہ یاسیت زدہ ساحر کی نظموں کا حسیں پرتو

کہ ناصر کاظمی کی یاس میں ڈوبی غزل کی عکس ریزی ہے

Friday 26 April 2024

تم تھے اب نہیں ہو تم نہیں ہو گے

 تم تھے، اب نہیں ہو


مکڑی کے جالوں کے اس پار

دیکھنے والی تمہاری آنکھیں بینائی سے محروم ہوں گی

اور بھیڑیے ہوں گے

بھیڑیے کے ہاتھوں میں تمہارے لیے

کمزور بوسیدہ لکڑی سے بنے کافن ہوں گے

جنگل میں دور تک خون پھیلا ہو گا

یہ دل کا انکشاف ہے یہ عین شین قاف ہے

 یہ دل کا انکشاف ہے یہ عین شین قاف ہے

جو کعبے پر غلاف ہے یہ عین شین قاف ہے

تھی ارنی ضد کسی کی اور ملنے کو گیا کوئی

سو بات صاف صاف ہے یہ عین شین قاف ہے

مِری خرد کی ہو گئی جنون سے مصالحت

ہر اک خطا معاف ہے یہ عین شین قاف ہے

اس لیے بھی وه مجھے دل سے نہیں ملتی ہے

 اس لیے بھی وه مجھے دل سے نہیں ملتی ہے

اس کی مشکل مِری مشکل سے نہیں ملتی ہے

وقت تسلیم بھی کرتا ہے نہیں بھی ہم کو

داد ملتی ہے مگر دل سے نہیں ملتی ہے

تُو ابھی ہجر کی بھٹی میں نہیں ٹھیک پکا

تیری تصویر ابھی سِل سے نہیں ملتی ہے

دل چاک جگر چاک گریباں دریدہ

 دل چاک جگر چاک گریباں دریدہ

یہ لوگ وہ ہیں جن کے ہیں ارمان دریدہ

کیا فائدہ جنگل میں درندوں کی کریں کھوج

انسان ہے اس شہر میں انسان دریدہ

چہرہ تو ہے کچھ اور، دکھاتا ہے وہ کچھ اور

اس دور میں ہر شخص ہے پہچان دریدہ

جلد بازی سے نہیں آرام سے سوچو

 تو پهر تم یہ سمجهتی ہو

کہ میں جهوٹا، فریبی اور دهوکے باز یعنی اس طرح کا اور کیا کچھ ہوں

تمہاری بے قراری نے مجهے مجبور کر ڈالا

کہ میں وہ ساری باتیں تم سے کہہ دوں

جو مجهے مرشد نے کہنے سے بڑے دن ہو گئے تهے، روک رکها تها

وہ کہتے ہیں