Wednesday, 20 November 2024

نوری موسم نوری رنگت ہر طرف جلوہ ہوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نوری موسم نوری رنگت ہر طرف جلوہ ہوا

دو جہاں کا حال بھی تو ہو بہو ایسا ہوا

آمد خیر الوریٰﷺ کا جب مہینہ آ گیا

پھر تصور میں تجلّی کا اثر پیدا ہوا

بت گرا ہے منہ کے بل مجرے میں ہے کعبہ جھکا

کس کی آمد ہے کہ عالم خوب ہے چمکا ہوا

یہ دل فریب تمنا میں بے قرار کیا

 یہ دل فریبِ تمنا میں بے قرار کِیا

یہی ہے جُرم جسے ہم نے بار بار کیا

نہ ہم نے سُود و زیاں دیکھ کر محبت کی

نہ نفرتوں کا کبھی ہم نے کاروبار کیا

شکستہ رُوح، سُلگتی نِگہ، دلِ مہجور

نہ پُوچھ کیسے ہر اک زخم کا شمار کیا

نا امید پرندے اڑتے رہتے ہیں

 کوشش


کئی دنوں سے میرے سر میں

صبح شام اور رات رات بھر

نا امید پرندے اڑتے رہتے ہیں

انہیں روکنا مشکل ہے

لیکن اپنی کالی کالی زلفوں میں

گھونسلہ کرنے سے

شکوہ ہائے غم جہاں سے بچیں

 شکوہ ہائے غمِ جہاں سے بچیں

آ، کہ ہم سعئ رائیگاں سے بچیں

آ، کہ سمجھیں زمیں کی خُوش سببی

بے سبب خوف آسماں سے بچیں

چھین لے جو یقین کی توفیق

لازماً ایسے ہر گُماں سے بچیں

ہماری کون سنے گا کسی سے آس نہیں

 ہماری کون سُنے گا کسی سے آس نہیں

یہاں تو دُور تلک کوئی غم شناس نہیں

تمام عُمر میں اک شخص ہی کمایا گیا

ستم تو دیکھیے اب وہ بھی میرے پاس نہیں

سب اپنے دل کو ہتھیلی پہ لے کے پھرتے ہیں

تمہارے شہر میں عزت کسی کو راس نہیں

ٹمٹماتے ہوئے تاروں نے کہا صبح بخیر

 ٹمٹماتے ہوئے تاروں نے کہا صبح بخیر

آج پھر نیند کے ماروں نے کہا صبح بخیر 

جیسے ہی شمس نے بکھرائیں زمیں پر کرنیں 

تیری پلکوں کے اشاروں نے کہا صبح بخیر

جب کبھی جھانک کے آنکھوں میں صبا کی دیکھا

مجھ کو پُر کیف نظاروں نے کہا صبح بخیر

دیر مجھ سے کبھی ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے

 دیر مجھ سے کبھی ہو جائے تو دُکھ ہوتا ہے

منتظر ہار کے سو جائے تو دکھ ہوتا ہے

چور رہتا ہے تگ و تاز سے میرا بھی بدن

جب عیاں چہرے سے ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے

جس کی دمسازی سے دم خم ہو لب و لہجے میں

خار لفظوں کے چبھو جائے تو دکھ ہوتا ہے