Sunday, 6 April 2025

وہ جلوہ ہے نور کبریا کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ جلوہ ہے نور کبریا کا

وہ صدر ہے بزم اصطفا کا

امام ہے خیل انبیا کا

ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا

معین انصاف او وفا کا

مٹانے والا وہ جفا کا

میں اپنی ذات میں تنہا

 میں اپنی ذات میں تنہا


میں اپنی ذات میں تنہا

سبھی ہیں دوست میرے پر

نہیں ہے چارہ گر کوئی

میں اپنی ذات میں تنہا

کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں

یہاں ہر سمت ویرانی

گماں اس کا ہے نیکوکار ہیں ہم

 گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم 

کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم

یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے 

خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم

دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے

خیانت کے علمبردار ہیں ہم

کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی

 کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی

کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی

آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی

اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی

اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو

بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو

رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

 رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے

لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں

یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے

لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی

آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے

بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں

 بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں

گُزری تھی کہاں اپنی وہ شب پوچھ رہے ہیں

کب تک میں چھپاؤں گا زمانے کی نظر سے

اب لوگ اُداسی کا سبب پوچھ رہے ہیں

کیا تم پہ بھی گزرا تھا یونہی نزع کا عالم

ہم لوگ جو ہیں جان بہ لب پوچھ رہے ہیں

Saturday, 5 April 2025

حرف کب معتبر نہیں ہوتا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حرف کب معتبر نہیں ہوتا

مدح میں صَرف گر نہیں ہوتا

داغِ ہجراں کسے دکھاتے گر

تجھ سا خیرالبشر نہیں ہوتا

دل کو اعزاز ہے تِری آمد

ہر کسی کا یہ گھر نہیں ہوتا