ہم اس لہو کا خراج لیں گے (رزمیہ ملی ترانہ)
لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے
لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
خراج لیں گے ۔۔۔
ہم اس لہو کا خراج لیں گے (رزمیہ ملی ترانہ)
لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے
لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
خراج لیں گے ۔۔۔
پھر وقتِ جہاد آیا
پھر شیرِ خدا جاگے پھر وقتِ جہاد آیا
پھر آج شہیدوں کا لہو رنگِ حنا لایا
پھر شیرِ خدا جاگے۔۔۔
لب چومنے غازی کے پھر آج دعا آئی
پھر نصر من اللہ کی سینوں سے صدا آئی
پھر شیرِ خدا جاگے پھر وقتِ جہاد آیا
شاہیں صفت یہ تیرے جواں (ہوا بازِ وطن)
شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک
ان غازیوں پہ سایہ فگن ہے خدائے پاک
شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک
سینوں میں صبر و ضبط و سکونو رضاکا نور
چہروں پہ لطف و مہر و خلوص و وفا کا نور
پیشانیوں پہ جذبۂ بے انتہا کا نور
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں نعت لکھوں اور ہو جائے تکمیل سفر لکھتے لکھتے
میں اپنے گھر سے جا پہنچوں سرکارؐ کے گھر لکھتے لکھتے
تعریف نبیﷺ کے گیسو کی، اور وصف نبی کے چہرے کا
میں شام کو لکھنے بیٹھوں اگر ہو جائے سحر لکھتے لکھتے
پھر اُن کے تبسم کا خاکہ الفاظ میں کچھ کچھ کھینچ سکوں
کھلتی ہوئی کلیوں پر میری پڑ جائے نظر لکھتے لکھتے
نظم "سیلن زدہ روح" سے اقتباس
میں محبت کر کے اب
تنہائیوں کی دلدل میں بیٹھے اب کسی
ابابیل کی منتظر ہوں
کہ شاید دو بوند محبت مل جائے
اور میں جی لوں
چند اور پل
گر نمی آنکھ کی صحرا کو عطا ہو جائے
اس سِسکتی ہوئی مٹی کا بھلا ہو جائے
جو تِری آنکھ میں ہے میرے دروں تک آئے
جو تِرے دل میں ہے وہ میری صدا ہو جائے
دشت کو کھینچ کے لاؤں گا یہاں آنگن تک
رُوحِ مجنوں کو اگر مجھ سے گِلہ ہو جائے
یہ غم نہیں ہے کہ اب آہِ نارسا بھی نہیں
یہ کیا ہوا کہ مِرے لب پہ التجا بھی نہیں
ستم ہے، اب بھی امیدِ وفا پہ جیتا ہے
وہ کم نصیب کہ شائستۂ جفا بھی نہیں
نگاہِ ناز، عبارت ہے زندگی جس سے
شریکِ درد تو کیا، درد آشنا بھی نہیں