Friday 30 June 2023

عبد و معبود کے فاصلے توڑ کر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

معراج


عبد و معبود کے فاصلے توڑ کر

حُسن اور نُور کی

مشعلیں جل اُٹھیں

روشنی

اپنی جلوہ گری کی اداؤں پہ

حیران تھی

اللّٰہ اکبر اے خوشا صل علیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


اللّٰہ اکبر، اے خوشا، صَلِّ علیٰ

دے دل کی ہر دھڑکن صدا، صلِ علیٰ

پیہم وظیفہ یہ کروں، جب تک جیوں

لب پر ہو یہ وِرد اے خدا، صلِ علیٰ

کیسا کیا، رب نے کرم، صبحِ ازل

میرے مقدر میں لکھا، صلِ علیٰ

محمد نور ذات کبریا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


محمدﷺ نور ذاتِ کبریا ہے

خدا سے کم ہے اور سب سے سوا ہے

بجز احمدﷺ یہ کس کا مرتبا ہے

کہ ہر اک پیشوا کا پیشوا ہے

وہ بحرِ فضل ہے اس کا کہ جس کے

ہر اک قطرہ میں اک دریا بھرا ہے

یہ کون طائر سدرہ سے ہم کلام آیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ کون طائرِ سدرہ سے ہم کلام آیا

جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا

جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا

زباں پہ بار خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مِری زباں کے لیے

خطِ جبیں تِرا امّ الکتاب کی تفسیر

رگ جاں سے نزدیک ہے میری جاں تو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رگِ جاں سے نزدیک ہے میری جاں تُو

مگر پھر جو دیکھا کہاں میں کہاں تُو

حقیقت میں ہے ماسویٰ چیز ہی کیا؟

اِدھر تُو اُدھر تُو، یہاں تُو وہاں تُو

نہ تو مجھ کو چھوڑے نہ میں تجھ کو چھوڑوں

وہیں تُو جہاں میں، وہیں میں جہاں تُو

سہانی رات تھی اور پر سکوں زمانہ تھا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت قوالی بر واقعۂ معراج

٭

سُہانی رات تھی اور پُرسکوں زمانہ تھا

اثر میں ڈُوبا ہوا جذبِ عاشقانہ تھا

انہِیں تو عرش پر محبوبؐ کو بُلانا تھا

ہوس تھی دِید کی، معراج کا بہانہ تھا

یہ کمالِ حُسن کا تھا معجزہ

کہ فراق حق بھی نہ سہہ سکا

ساز ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا

 سازِ ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا

آج تک دنیائے دل فردوس زار نغمہ ہے

دے رہی ہے جنبش لب دعوت لطف و کرم

ایک ہلکا سا تبسم پردہ دار نغمہ ہے

لڑ گئی تھیں رات نظریں چشم ساقی سے مِری

دیکھتا ہوں جس کو سیراب خمار نغمہ ہے

یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں

 یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں

کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں

یہ تنہائی ہے کیوں میرا مقدر

یہ تنہائی میں اکثر سوچتا ہوں

سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی

میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں

جہاں عشق دفن ہے میرا اس مزار کی گلیاں

 جہاں عشق دفن ہے میرا، اس مزار کی گلیاں

تیرے نام وقف سبھی دل کے اختیار کی گلیاں

میری دیوانگی کو کسی سند کی ضرورت کہاں

مجھے دیکھ کر مسکراتی ہیں میرے یار کی گلیاں

میرے صبر کے قدموں نے کئی بار فتح کی ہیں

اے وعدہ بھولنے والے! تیرے انتظار کی گلیاں

کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی

 ‎کھینچی ہے تصور میں تصویرِ ہم آغوشی

‎اب ہوش نہ آنے دے مجھ کو میری بے ہوشی

‎پا جانا ہے کھو جانا،۔ کھو جانا ہے پا جانا

‎بے ہوشی ہے ہُشیاری، ہُشیاری ہے بے ہوشی

‎میں سازِ حقیقت ہوں،۔ دمساز حقیقت ہوں

‎خاموشی ہے گویائی، گویائی ہے خاموشی

پریم پیالہ چکھا نہیں

 کلاسیکی شاعری

سندھی شاعری سے اردو ترجمہ


پریم پیالہ چکھا نہیں

صوفی بنا تو کیا ہوا 

دل کا رنگنڑ رنگتا نہیں 

کپڑا رنگیا تو کیا ہوا

قاضی کتاباں کھول کے

مسئلے بتاون اور کے

ایک ماہر علم نحو کشتی میں سوار ہوا

 آن یکی نحوی بہ کشتی در نشست

رو بہ کشتی ‌بان نہاد آن خود پرست

ایک ماہر علم نحو کشتی میں سوار ہوا

پڑھے لکھے متکبر نے ملاح کا رخ کیا

گفت ہیچ از نحو خواندی، گفت لا

گفت نیمِ عمر تو شد در فنا

منقبت حضرت داتا گنج بخش سید ہجویر مخدوم امم

 سیّدِ ہجویر مخدومِ اُمم

‎مرقدِ او پیرِ سنجر را حرم

‎ہجویر کے سید اور مسلمانوں کے مخدوم 

جن کا مزار حضرت سنجری کے لیے ایک مقدس مقام تھا

‎بند ہائے کوہسار آساں کسیخت

‎در زمینِ ہِند تُخم سجدہ ریخت

اے سیمیں ذقن اے سنگ دل اے لالہ رخسار

 سیمین‌ ذقنا، سنگ‌ دلا، لالہ ‌عذارا

خوشکن بہ نگاہی دلِ غم‌ پرورِ ما را

اے سِیمیں ذقن، اے سنگ دل، اے لالہ رُخسار

اپنی ایک نگاہ سے ہمارے دلِ غم پرور کو خوش کر دو

این قالبِ فرسوده گر از کُویِ تو دور است

اَلقَلْبُ عَلیٰ بابِكَ لَيْلاً ونَهارا

میں تجھ سے دوستی اور محبت رکھتا ہوں

 دلبرا، عمریست تا من دوست می دارم ترا

در غمت می سوزم و گفتن نمی یارم ترا

اے میرے معشوق! ایک عمر گزر گئی ہے کہ میں تجھ سے دوستی اور محبت رکھتا ہوں

تیرے غم میں جلتا رہتا ہوں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں تجھ سے یہ بات کہہ سکوں

وای بر من کز غمت می میرم و جان می دهم

واگهی نیست از دل افگار بیمارم ترا

Thursday 29 June 2023

نہ کیوں نثار کروں تم پہ جاں رسول اللہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نہ کیوں نثار کروں تمؐ پہ جاں رسول اللہؐ

تمؐ ہی تو ہو مِرے اک پاسباں رسول اللہؐ

تمہارے نام سے دل کو قرار ملتا ہے

تم ہی سے ہیں مرے دونوں جہاں رسول اللہؐ

جو آپﷺ آئے تو دنیا مہک اٹھی ساری

نہ دیکھا ایسا کوئی باغباں رسول اللہؐ

جام حیات دست کرم سے پیے ہوئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جامِ حیات، دستِ کرم سے پیے ہوئے

اک عمر ہو گئی مِرے آقاﷺ جیے ہوئے

نادم کھڑے ہیں شہرِ عطا تیری خاک پر

دھڑکن کا ساز اور بھی مدھم کیے ہوئے

یثرب کے سنگریزے چراغاں میں ڈھل گئے

“آئے حضورﷺ نُور کا عالم لیے ہوئے“

بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے کے واسطے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے کے واسطے

آپﷺ آ گئے چراغ جلانے کے واسطے

کیا کیا صعوبتیں نہ اُٹھائیں حضورﷺ نے

اللہﷻ کا پیام سُنانے کے واسطے

اک اہتمامِ خلوتِ نُور آفریں ہُوا

بندوں کو اپنے رب سے ملانے کے واسطے

آئی نسیم کوئے محمد صلى الله عليہ و سلم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آئی نسیمِ کُوئے محمدؐ صلى الله عليہ و سلم

کِھچنے لگا دل سُوئے محمدؐ صلى الله عليہ و سلم

کعبہ ہمارا کُوئے محمدؐ صلى الله عليہ و سلم

مصحفِ ایمانِ رُوئے محمدؐ صلى الله عليہ و سلم

لے کے مِرا دل آئیں گے مر جائیں گے مِٹ جائیں گے

پہنچیں تو ہم تا کُوئے محمدؐ صلى الله عليہ و سلم

محمد مصطفیٰ محبوب داور سرور عالم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


محمد مصطفیٰﷺ محبوبِ داور، سرورِ عالم​

وہ جس کے دم سے مسجودِ ملائک بن گیا آدم​

کیا ساجد کو شیدا جس نے مسجودِ حقیقی پر​

جھکایا عبد کو درگاہِ معبودِ حقیقیﷻ پر​

دلائے حق پرستوں کو حقوقِ زندگی جس نے​

کیا باطل کو غرقِ موجۂ شرمندگی جس نے

میرے دل میں کئی الاؤ بھڑک رہے ہیں

 کلاسیکی شاعری

سندھی شاعری سے اردو ترجمہ


میرے دل میں کئی الاؤ بھڑک رہے ہیں

یہ کیفیت میرے عاشق ہونے کا سبب ہے

میخانے کی طرف جاتے ہوئے جب مسجد

کے قریب سے گزر ہوا میرا تو

میں نے تسبیح کو توڑ دیا

ہم سراپا شوق ہیں لیکن ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ

 تمام شوقیم لیک غافل‌ کہ دل بہ راه‌ِ کہ می‌ خرامد

جگربہ داغ‌ِ کہ می ‌نشیند، نفس بہ آه‌ِ کہ می ‌خرامد

ہم سراپا شوق ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ دل کس کی راہ میں محوِ خرام ہے

جگر کس کا داغ لیے بیٹھا ہے اور سانس کس کی محبت میں آہ بھر رہی ہے

غبارِ ہر ذره می‌ فروشد بہ حیرت آیینہ ‌یِ تپیدن

رمِ غزالانِ این بیابان پیِ نگاه‌ِ کہ می ‌خرامد

پہلے مسلمان اور مردوں کے سردار علی ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مُسلمِ اول شہِ مرداں علی

عشق را سرمایۂ ایماں علی

پہلے مسلمان اور مردوں کے سردار علی ہیں

عشق کے لیے ایمان کا سرمایہ علی ہیں

از ولائے دودمانش زندہ ام

در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام

وہ کردگار کی دیرینہ تمنا کی تکمیل ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تمنائے دیرینہ کردگار

بوے ایزد از خویش امیدوار

وہ کردگار کی دیرینہ تمنا کی تکمیل ہیں

ان سے خالق کی امیدیں وابستہ ہیں

تن از نور پالودہ سر چشمہ

دلے ہمچو مہتاب در چشمہ

رسول کے ہجر و فراق میں کھجور کا ستون

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

حنانہ


استنِ حنانہ در ہجرِ رسول

نالہ میزد ہمچو اربابِ عقول

رسولﷺ کے ہجر و فراق میں 

کھجور کا ستون انسانوں کی طرح رو دیا

در میانِ مجلسِ وعظ آنچناں

کز وے آگاہ گشت ہم پیر و جواں

جو فرشتوں کا فخر اور اللہ کا نور ہو وہ انسان آپ ہیں

 عارفانہ کلام، حمد نعت منقبت


چوں ماہِ در ارض و سما، تاباں توئی، تاباں توئی

رشکِ ملک، نورِ خدا، انساں توئی، انساں توئی

چودھویں کے چاند کی طرح زمین و آسمان میں آپ ہی روشن و منور ہیں

جو فرشتوں کا فخر اور اللہ کا نور ہو، وہ انسان آپﷺ ہیں

روشن ز رویت دو جہاں، عکس رخت خورشید و ماہ

اے نورِ ذات کبریا رخشاں توئی رخشاں توئی

Wednesday 28 June 2023

تو ہی آقا تو ہی مولا تو ہی رب دو جہاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تو ہی آقا، تو ہی مولا، تو ہی ربِّ دو جہاں

ہر ثنا ہے تجھ کو زیبا، مالکِ کون و مکاں

حمد لکھ پاؤں میں تیری، تاب یہ مجھ میں کہاں

ہو اگر چشمِ کرم تیریﷻ تو ممکن ہو بیاں

ذات تیری ہر جگہ ہے پھر بھی آنکھوں سے نہاں

تیری قدرت، تیرا جلوہ، ذرے ذرے سے عیاں

بخت میرا جو محبت میں رسا ہو جائے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بخت میرا جو محبت میں رسا ہو جائے 

میری تقدیر مدینے کی فضا ہو جائے 

کاش مقبول مِرے دل کی دعا ہو جائے 

ایک سجدہ درِ مولاﷺ پہ ادا ہو جائے 

اس کی تعظیم کو اٹھتے ہیں سلاطین جہاں 

تِرے کوچے سے جو منسوب گدا ہو جائے 

خوشا ہے یہ نامۂ اعمال میں مایہ درودوں کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


خوشا ہے یہ نامۂ اعمال میں مایہ، درودوں کا

ہمارے سر پہ ہو گا حشر میں سایہ، درودوں کا

زہے قسمت مدینے سے رسید آئی سلاموں کی

خوشا! اس آستانے سے جواب آیا درودوں کا

بشر کی عمر تک تھے اور جتنے ذکر تھے سارے

مگر، سورج کسی پل بھی نہ گہنایا، درودوں کا

اے خدا ذات کا اپنی مجھے عرفاں ہو جائے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے خدا ذات کا اپنی مجھے عرفاں ہو جائے

میری ہر سانس تیرے تابعِ فرماں ہو جائے

چند شمعیں فروزاں ہے میرے سینے میں

روشنی دے مجھے اتنی کہ چراغاں ہو جائے

صرف دو زاویوں سے خود کو ہمیشہ دیکھوں

زندگی آئینۂ سُنت و قُرآں ہو جائے

سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سیرِ گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر​

سُوئے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر​

سرگزشتِ غم کہوں کس سے تیرے ہوتے ہوئے​

کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر​

بے لقائے یار اُنﷺ کو چین آ جاتا اگر​

بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر

کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا

 جوگی


کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا

سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور طہور ہوا

مستانہ ہوائے گلشن تھی جانانہ ادائے گلبن تھی

ہر وادی وادیٔ ایمن تھی ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا

جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخ نہال رباب بنی

شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا

زندگی موت سے بھاری ہے

 زندگی موت سے بھاری ہے 

اک بے نام درد آنکھوں کے نیچے

گہرے سیاہ نیل چھوڑ چکا ہے

زندگی ریشم کے دھاگوں کے گچھے کی مانند

الجھی ہوئی ہے، سلجھ نہیں رہی

نا ہی اتنی ہمت ہے کہ سلجھائی جا سکے

دونوں ہی تو سفر میں تھے رکتے بھلا کہاں

 دونوں ہی تو سفر میں تھے رُکتے بھلا کہاں

مِلتے بھی تجھ سے دوست تو مِلتے بتا کہاں

بِکھرے تھے اس کی سیج پہ گُلہائے رنگ رنگ

کس کس مہک کو لائی تھی بادِ صبا کہاں

اک شورِ بے کراں ہے تہِ آسماں ابھی

جانے بھٹک رہی ہو مِری التجا کہاں

بس یہی سوچ کے دوبارہ محبت نہیں کی

 بس یہی سوچ کے دوبارہ محبت نہیں کی

عمر بھر اس نے مِرے شہر سے ہجرت نہیں کی

فاسق و فاجر و غدار کہا جاتا ہے

جرم اتنا ہے کہ ظالم کی اطاعت نہیں کی

میرے مولا یہ در و بام سلامت رکھنا

میں نے اس بار قبیلے کی حمایت نہیں کی

کچھ تعلق بھی نہیں رسم جہاں سے آگے

 کچھ تعلق بھی نہیں رسم جہاں سے آگے

اس سے رشتہ بھی رہا وہم و گماں سے آگے

لے کے پہنچی ہے کہاں سیم بدن کی خواہش

کچھ علاقہ نہ رہا سود و زیاں سے آگے

خواب زاروں میں وہ چہرہ ہے نمو کی صورت

اور اک فصل اگی رشتۂ جاں سے آگے

زمانہ پوچھ رہا ہے مرے سخن کا جواب

 زمانہ پوچھ رہا ہے مرے سخن کا جواب

ریاضتیں بھی ہیں لیکن عطا ہے فن کا جواب

کوئی تو شہر سے تھک ہار کر بھی آئے گا

یہی ہے گاؤں کا جنگل کا اور بن کا جواب

ہمیں تو بس تِری باتوں میں آنا ہوتا ہے

ہمارے فہم میں اتنا ہے بھولے پن کا جواب

آدمی خاک بنا جاتا ہے

 آدمی خاک بنا جاتا ہے

تُو بتا! ہجر کسے بھاتا ہے

ہم جسے بُھول رہے ہوتے ہیں

یاد رکھ! یاد وہی آتا ہے

عشق دیتا ہے سکوں بھی دل کو

پھر کہیں آگ لگا پاتا ہے

کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا

 کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا

مجھے ان آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا

کُھلی آنکھوں سے کب تک جستجو کا خواب دیکھوں گا

حجابِ ہفت پردہ اپنے چہرے سے اٹھاؤ نا

ستارے پر ستارہ اوک میں بہتا چلا آئے

کسی شب کہکشاں انڈیل کر مجھ کو پلاؤ نا

خوشرنگ و سحر کار نظاروں کو کیا ہوا

 خوشرنگ و سحر کار نظاروں کو کیا ہوا

اللہ، اس چمن کی بہاروں کو کیا ہوا

روشن تھیں جن سے بزمِ تصور کی خلوتیں

ان رشکِ مہر و ماہ ستاروں کو کیا ہوا

ساحل کو پا سکی نہ کبھی کشتیٔ حیات

دریائے آرزو کے کناروں کو کیا ہوا

زاد رہ بھی نہیں بے رخت سفر جاتے ہیں

 زادِ رہ بھی نہیں، بے رختِ سفر جاتے ہیں

سخت حیرت ہے کہ یہ لوگ کدھر جاتے ہیں

بے خودی میں تِرے دیوانے جدھر جاتے ہیں

منزلیں پُوچھتی پھرتی ہیں کدھر جاتے ہیں

ہائے، کس موڑ پہ حالات نے پہنچایا ہے

آپ ہمسائے سے، ہم سایہ سے ڈر جاتے ہیں

دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی

 دل کے سُونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی 

دُھوپ بھرے سناٹے میں آواز سُنی ہے چھاؤں کی 

اک منظر میں سارے منظر پس منظر ہو جانے ہیں 

اک دریا میں مل جانی ہیں لہریں سب دریاؤں کی 

دشت نوردی اور ہجرت سے اپنا گہرا رشتہ ہے 

اپنی مٹی میں شامل ہے مٹی کچھ صحراؤں کی 

Tuesday 27 June 2023

فائدہ ہے یا خسارہ ہم کو سب معلوم ہے

 فائدہ ہے یا خسارہ، ہم کو سب معلوم ہے؟

کیوں کریں ہم اِستخارہ ہم کو سب معلوم ہے

لوگ کیوں خود کو بتاتے ہیں ہمارا خیر خواہ

کون ہے کتنا ہمارا؟ ہم کو سب معلوم ہے

کس کے گھر میں تیرگی کا راج تھا کل رات کو

چاند کس کے گھر اُتارا؟ ہم کو سب معلوم ہے

میں مدح و ثنا نور لولاک کروں کیسے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میں مدح و ثناء نورِ لولاکﷺ کروں کیسے

ذرہ ہوں میں سورج کا ادراک کروں کیسے

جب آپؐ کے جبے میں پیوند ہوں اے آقا

میں ریشم و اطلس کو پوشاک کروں کیسے

پلکیں تو مِری گردِ جادہ سے ہوئیں بوجھل

نظروں کو میں اب سوئے افلاک کروں کیسے

راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپﷺ آتے ہیں

لوگ محفل کو سجاتے ہیں کہ آپﷺ آتے ہیں

اہلِ دل گیت یہ گاتے ہیں کہ آپﷺ آتے ہیں

آنکھ رہ رہ کہ اُٹھاتے ہیں کہ آپﷺ آتے ہیں

کہکشاں، رہگزر، چاند، ستارے، ذرے

سب چمک کر یہ دکھاتے ہیں کہ آپﷺ آتے ہیں

اس بزم میں جانا ہے تو پانے کے لئے جا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


اس بزم میں جانا ہے تو پانے کے لیے جا

بگڑی ہوئی تقدیر بنانے کے لیے جا

دل کا یہ تقاضہ ہے زمانے سے کہ ان کو

رودادِ غمِ عشق سُنانے کے لیے جا

یہ تشنگئ شوق وہیں تیری بُجھے گی

جا پیاس وہیں اپنی بُجھانے کے لیے جا

دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں یہ کیف کیوں آج آ رہے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں یہ کیف کیوں آج آ رہے ہیں

کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے حضورﷺ تشریف لا رہے ہیں

نوازشوں پر نوازشیں ہیں،۔ عنایتوں پر عنایتیں ہیں

نبیﷺ کی نعتیں سنا سنا کر ہم اپنی قسمت جگا رہے ہیں

کہیں پہ رونق ہے مفلسوں کی کہیں پہ رونق ہے دل جلوں کی

ہم کتنے خوش بخت ہیں جو نبیﷺ کی محفل سجا رہے ہیں

سائے میں تمہارے ہیں قسمت یہ ہماری ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سائے میں تمہارے ہیں قسمت یہ ہماری ہے

قربان دل و جاں ہیں کیا شان تمہاری ہے

کیا پیش کروں تم کو کیا چیز ہماری ہے

یہ دل بھی تمہارا یہ جاں بھی تمہاری ہے

نقشہ تیرا دلکش ہے صورت تیری پیاری ہے

جس نے تمہیں دیکھا ہے سو جان سے واری ہے

رات آنکھوں میں نمی ٹھہر گئی دیر تلک

 رات آنکھوں میں نمی ٹھہر گئی دیر تلک 

دل میں اک ٹیس جو

رہ رہ کہ اٹھی جاتی تھی

صبح دیکھا تو یہ جانا ہم نے  

درد کی شاخ پہ اک پھول نکل آیا ہے 

وہ جب لہرا کے بادل ہو گیا تھا

 وہ جب لہرا کے بادل ہو گیا تھا

میرا سایہ بھی جل تھل ہو گیا تھا

جہاں سے اس نے میرا ساتھ چھوڑا

وہاں سے شہر جنگل ہو گیا تھا

تمنا کی سواری جا رہی تھی

میں اس کے ساتھ پیدل ہو گیا تھا

اب بھی دلکش ہے خدوخال سنا ہے میں نے

 اب بھی دلکش ہے خد و خال سُنا ہے میں نے

خیر دیکھا نہیں، فی الحال سنا ہے میں 

ایک ہی شخص کو چاہا ہے بڑی مُدت تک 

ایک ہی گیت کئی سال سنا ہے میں 

خون کے رنگ میں ترمیم تو ہو سکتی ہے

اشک کا رنگ فقط لال سنا ہے میں نے

مقام دل بہت اونچا بنا ہے

 مقامِ دل بہت اونچا بنا ہے

کمندِ عقل اب تک نارسا ہے

فروغِ عشق سے بےتاب جلوے

حریمِ ناز میں محشر بپا ہے

مزاجِ حُسن میں یہ درد مندی

بہ فیضِ عشق کیا سے کیا ہوا ہے

دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے

 دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے

دھبے بھی ہیں نگاہ میں اپنی قباؤں کے

سینہ میں سوز مرگ تمنا نہ پوچھیۓ

مرگھٹ میں جیسے اٹھتے ہوں شعلے چتاؤں کے

ہم نے تو کشتیوں کو ڈبونا کیا قبول

منت گزار ہو نہ سکے ناخداؤں کے

بعد مدت کے وہ آئے ہیں نظر شام کے بعد

 بعد مدت کے وہ آئے ہیں نظر شام کے بعد

کوئی پوچھے کہ وہ جاتے ہیں کدھر شام کے بعد

وعدہ کر کے وہ نہ آئے تو ہمیں فکر ہوئی

جانے کس حال میں وہ ہوں گے کدھر شام کے بعد

ہے نیا شہر نئے لوگ کوئی دیکھ تو لے

بھولے بھٹکے وہ کہیں جائیں نہ ڈر شام کے بعد

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

 مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

نہ دوا یاد رہے، اور نہ دعا یاد رہے

تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے

نہ خدائی کی ہو پرواہ نہ خدا یاد رہے

لوٹتے سیکڑوں نخچیر ہیں کیا یاد رہے

چیر دو سینے میں دل کو کہ پتا یاد رہے

کسی اللہ والے کی صحبت میں ایک لمحہ بیٹھنا

 یک زمانے صحبتِ با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا

کسی اللہ والے کی صحبت میں ایک لمحہ بیٹھنا

سو سالہ مقبول عبادت سے بہتر ہے

اولیاء را ہست قدرت از الٰہ

تیر جستہ باز گر دانند راہ

لینن خدا کے حضور میں اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات

 لینن (خدا کے حضور میں)


اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات

حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تِری ذات

میں کیسے سمجھتا کہ تُو ہے یا کہ نہیں ہے

ہر دم متغیّر تھے خِرد کے نظریات

محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے

بِینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے اور عرش بریں تھراتا ہے

 آگ


قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے اور عرشِ بریں تھرّاتا ہے

اللہ! وفورِ غیرت سے نبیوںؑ کو پسینہ آتا ہے

وہ قبلۂ اول منزل تھی، معراج کی شب جو احمدﷺ کی

وہ مسجدِ اقصیٰ جلتی ہے، ایمان شہادت پاتا ہے

وہ تین سو تیرہ تھے جن سے تقدیرِ اُمم تھرّاتی تھی

ہم پون ارب ہیں جن کا سر ہر گام پہ جُھکتا جاتا ہے

حبیب رب العلا محمد شفیع روز جزا محمد

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


حبیب رب العلا محمدﷺ شفیعِ روزِ جزا محمدﷺ

نگاہ کا مدعا محمدﷺ، خیال کا آسرا محمدﷺ

انہی سے دنیا میں روشنی ہے انہی سے عرفان وآگہی ہے

ہیں آفتابِ جہاں محمدﷺ، جمالِ نورِ خدا محمدﷺ

یہی ہیں زخمِ جگر کا مرہم انہی کا ہے اسم، اسمِ اعظم

قرار بے تابیوں کو آیا، زباں سے جب کہہ دیا محمدﷺ

اللہ اللہ جلوۂ زیبائے بامِ عائشہ

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اللہ اللہ جلوۂ زیبائے بامِ عائشہؓ

‎ہے ہلالِ آمنہ ماہِ تمامِ عائشہؓ

مرحبا یہ جلوۂ زیبائے بامِ عائشہؓ

ہے ہلالِ آمنہؑ، ماہِ تمامِ عائشہؓ

روز و شب پیشِ نظر وہ زُلف و رخسارِ رسولؐ

رشکِ صد خُلدِ بریں وہ صبح و شامِ عائشہؓ

نور افروز مری قبر میں جب آئے گا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


نور افروز مِری قبر میں جب آئے گا

دوستو! اصل میں تب وقتِ طرب آئے گا

سب بیک وقت ميسر تجھے ہو گا جس جا

کچھ ہی لمحوں میں وہ صحرائے عرب آئے گا

مسکرا دے گی سرِ حشر کریمی انﷺ کی

قہر برسانے پہ جس وقت بھی رب آئے گا

Monday 26 June 2023

فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے

میں مدینے کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے

دل میں حسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے

راہِ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے

میرے دن پھر جائیں یا رب شب وہ آئے خیر سے

دل میں جب ماہِ مدینہ گھر بنائے خیر سے

چلو دیار نبی کی جانب درود لب پر سجا سجا کر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چلو دیارِ نبی کی جانب درود لب پر سجا سجا کر

بہار لوٹیں گے ہم کرم کی دلوں کو دامن بنا بنا کر

نہ اُن کے جیسا سخی ہے کوئی نہ اُن کے جیسا غنی ہے کوئی

وہ بے نواؤں کو ہر جگہ سے نوازتے ہیں بلا بلا کر

جو شاہکار ان کی یاد کے ہیں امانتاً عشق نے دیے ہیں

چراغِ منزل بنیں گے اک دن رکھو وہ آنسو بچا بچا کر

تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی

 تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی

خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی

چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی

کتنی معصوم ضدیں ہیں تِرے دیوانوں کی

شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی

جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی

نہ تسلی نہ تشفی نہ دعا کچھ بھی نہیں

 نہ تسلی، نہ تشفی، نہ دعا کچھ بھی نہیں

کوئی شکوہ، نہ شکایت، نہ گلہ کچھ بھی نہیں

خُلق تھا، حفظِ مراتب تھا، تکلف تھا مگر

مُدتوں بعد ملے بھی تو ملا کچھ بھی نہیں

آئیے، بیٹھیۓ، فرمائیے، کہیۓ کے سوا

دیر تک بات ہوئی اور کہا کچھ بھی نہیں

وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک

 وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک

رسائی سالکو! جب عقل کر لے حدِ امکاں تک

جنوں میں دستِ لاغر کا ہے قبضہ اس بیاباں تک

جہاں سو منزلیں پڑتی ہیں دامن سے گریباں تک

مِرے دستِ جنوں کا زور اور پھر زور بھی کیسا

کہ ہمراہ گریباں کھینچے لاتا ہے رگِ جاں تک

خاموش ہے جو شخص وہ جب بول پڑے گا

 خاموش ہے جو شخص وہ جب بول پڑے گا

جو تم نے کیا، بزم میں سب بول پڑے گا

ہم سادہ مزاجوں کو ہنسی تیری ہنسی ہے

وہ تیری ہنسی کو بھی غضب بول پڑے گا

وہ جھوٹ بھی بولے گا تو ایمان و یقیں سے

شب روز کو وہ روز کو شب بول پڑے گا

اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا

 اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا

اک خواب تھا اور خواب بھی تعبیر نما تھا

اب تک وہ سماں یاد ہے جب ہوش بجا تھا

ہر شے میں مجھے لطف تھا ہر شے میں مزا تھا

تم جور و جفا مجھ پہ نہ کرتے تو برا تھا

ہوتے نہ اگر ظلم تو کیا لطف وفا تھا

دل کو کچھ یوں تیری یاد کے عذاب سے نکالا

 دل کو کچھ یوں تیری یاد کے عذاب سے نکالا

عشق کو ایڑ لگائی اور پاؤں رکاب سے نکالا

تھل میں دفن کیا ہے کبھی عاشق کو ہم نے

کبھی معشوق کی لاش کو چناب سے نکالا

فقط سانس بچتی ہے، اور وہ بھی سزا

تمہیں کھو کر سود و زیاں حساب سے نکالا

Sunday 25 June 2023

تابش حرف سے ماورا آپ ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تابشِ حرف سے ماوراء آپؐ ہیں

میرے آقاؐ رضائے خدا آپؐ ہیں

اہلِ طائف ہیں پتھر اٹھائے ہوئے

ہاتھ اٹھائے سراپا دعا آپؐ ہیں

کوئی کیا کر سکے نعت کا حق ادا

نعت سے حمد کا سلسلہ آپؐ ہیں

سخن کی بھیک مدینے کے شمال میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سخن کی بھیک

مدینے کے شِمال میں

اُحد کی شاہراہ پر کھڑا

یہ سوچتا تھا میں

بہت حسین وقت تھا

بڑا سہانا وقت تھا

نہالِ باغ رسالت حسین یاد آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نہالِ باغِ رسالت حسینؑ یاد آئے

گلِ شگفتۂ جنت حسینؑ یاد آئے

لہو کے چشمے اُبلنے لگے نگاہوں سے

جو آیا یومِ شہادت حسینؑ یاد آئے

نظر میں پھر گیا میدانِ کربلا کا سماں

اٹھا جو شورِ قیامت حسینؑ یاد آئے

کیا زندگی افزا ہے لہِک صل علیٰ کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


کیا زندگی افزا ہے لہِک ’صَلِّ علیٰ‘ کی

ہر قطرۂ خوں میں ہے ہُمک ’صَلِّ علیٰ ‘ کی

اِک ہالہ کئے رہتے ہیں اَنوارِ دُرُودی

چھنپے سے نہیں چھپتی چمک ’صَلِّ علیٰ ‘ کی

بالائے فلک نوُر میں ہو جاتی ہے تبدیل

آواز جو ہے زیرِ فلک ’صَلِّ علیٰ‘ کی

ایسا تجھے خالق نے طرحدار بنایا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ایسا تجھے خالق نے طرحدار بنایا​

یوسفؑ کو تِرا طالبِ دیدار بنایا​

طلعت سے زمانے کو پُر انوار بنایا​

نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا​

دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے​

آئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا

آغاز ہی کو انجام سمجھ

 آغاز ہی کو انجام سمجھ

تُو صبح کو اپنی شام سمجھ

جو پایا ہے، وہ کھونا ہے

تقدیر اسی کا نام سمجھ

سچ کہنا بھی، سچ سُننا بھی

ہے بے حد مشکل کام سمجھ

روشنی کا سراغ پایا ہے

 روشنی کا سراغ پایا ہے

اپنے دل کو چراغ پایا ہے

ہر نظر اشکبار دیکھی ہے

ہر جگر داغ داغ پایا ہے

صاف دامن بچا لیا اپنا

آپ نے کیا دماغ پایا ہے

کسی سے کہاں ورنہ ہم بولتے ہیں

 کسی سے کہاں ورنہ ہم بولتے ہیں

مگر کیا کریں، دل کے غم بولتے ہیں

جنہیں علم و حکمت کی دولت عطا ہو

ہمیشہ وہی لوگ کم بولتے ہیں

وہ پہلو میں بیٹھے ہوئے ہیں ہمارے

نہ وہ بولتے ہیں نہ ہم بولتے ہیں

ہوا ہوں آشنا میں بے خودی سے

 ہوا ہوں آشنا میں بے خودی سے

لگایا دل کو اپنا مئے کشی سے

نبھاتے فرض کو ہیں تندہی سے

"ہمارا حوصلہ ہے زندگی سے"

اندھیری رات کا ہے وہ پُجاری

اُسے ہے چِڑ اے لوگو روشنی سے

بشر سے لفظ کن ہی رہ گیا ہے

 بشر سے لفظِ کُن ہی رہ گیا ہے

وگرنہ غیب تو وہ کہہ گیا ہے

جہنم آگ اس کو کیا جلائے

عذابِ زندگی جو سہہ گیا ہے

ضعیفی لاٹھی ٹیکے ڈھونڈتی ہے

وہ دل جو آنسوؤں میں بہہ گیا ہے

لڑکیاں کہیں بھی ہوں لڑکیاں ہی رہتی ہیں

 تھیمز کے کنارے شام 


تھیمز کا کنارا تھا 

شام اوڑھ کر رِدا 

بے شمار رنگوں کی

پانیوں میں گُھلتی تھی 

شام اور پانی کے 

بس محبت ہے امتحان میاں

 بس محبت ہے امتحان میاں

کرنا پڑتا ہے خود کو دان میاں

دعویٰ اس پر نہیں کوئی میرا

یہ پرائی ہے میری جان میاں

مل گیا لمحہ اک مسرت کا

تو غنیمت اسی کو جان میاں

ہوس کی منڈیوں میں آج بھی

 القارعہ


ہوس کی منڈیوں میں آج بھی 

محنت کشوں کے خون سے ہر سُو چراغاں ہے

زمیں کے قدرتی اور صنعتی

سارے وسائل

اور فروغِ زندگانی کے سبھی اسباب 

آج محصور ہیں دیمک زدہ دیواروں میں

آج محصور ہیں دیمک زدہ دیواروں میں

ہم بھی شامل تھے کبھی شہر کے معماروں میں

آخرش ہاتھ جلا ہی لیے اپنے ہم نے

جانے کیوں پھول نظر آتے تھے انگاروں میں

یہ کسی سے نہ کہا؛ لعل و جواہر تھے ہم

پتھروں کی طرح بِکتے رہے بازاروں میں

کوئی نہیں تھا ہنر آشنا تمہارے بعد

 کوئی نہیں تھا ہنر آشنا تمہارے بعد

میں اپنے آپ سے الجھا رہا تمہارے بعد

یہ میری آنکھیں بڑی تیز روشنی میں کھلیں

میں چاہتا بھی تو کیا دیکھتا تمہارے بعد

ہر ایک بات ہے الجھی ہوئی زبان تلے

ہر ایک لفظ کوئی بد دعا تمہارے بعد

Saturday 24 June 2023

نعت جب کہنے لگی تو گھر معطر ہو گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


روشنی اور خوشبوؤں کا ایک منظر ہو گیا

نعتﷺ جب کہنے لگی تو گھر معطر ہو گیا

اسم احمدﷺ کی صدائیں آ رہی ہیں دم بدم

ہر گلی کوچہ درودوںﷺ سے منور ہو گیا

دفعتا لب پہ جلا کیا اسم احمدﷺ کا چراغ

اک چھناکے سے اجالا دل کے اندر ہو گیا

منگتے ہیں کرم ان کا سدا مانگ رہے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


منگتے ہیں کرم ان کا سدا مانگ رہے ہیں

دن رات مدینے کی دعا مانگ رہے ہیں

ہر نعمتِ کونین ہے دامن میں ہمارے

ہم صدقۂ محبوبِ خدا مانگ رہے ہیں

اے دردِ محبت ابھی کچھ اور فزوں ہو

دیوانے تڑپنے کی ادا مانگ رہے ہیں

جس دن سے رہ طیبہ کی کچھ خاک ملی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جس دن سے رہِ طیبہ کی کچھ خاک ملی ہے

‏‎پیشانی مِری جس طرح سونے کی ڈلی ہے

‏‎کیا پوچھتے ہو شہرِ محمدﷺ کی بہاریں

‏‎جنت سے حسیں دوستو اک ایک گلی ہے

صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمْ

سیر چمن میں بیٹھ لب جو درود پڑھ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


سیرِ چمن میں، بیٹھ لب جُو، درود پڑھ

کر یاد، پھول دیکھ کے وہ رُو، درود پڑھ

ہر سانس وردِ صَلِّ علیٰ سے مہکتی آئے

جنت بنا رہے تِرا ہر سُو، درودﷺ پڑھ

خالی نہ جائے کوئی بھی پل اُنؐ کے ذکر سے

جتنا بھی وقت تجھ کو ملے تُو، درود پڑھ

آپ تو جانتے ہیں مرے کرب کو، آپ سے کیا چھپا ہے بھلا یا نبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپ تو جانتے ہیں مرے کرب کو، آپ سے کیا چھپا ہے بھلا یا نبیﷺ

میرے احوال پر بھی نظر کیجیے، آپ کو آپ کا واسطہ یا نبیﷺ

آپ کا دین دنیا میں دائم رہے سختیوں میں بھی ہم اس پہ قائم رہے

سخت مشکل ہے انگارۂ سرخ کو یوں کفِ دست میں تھامنا یا نبیﷺ

سال ہا سال سےکاٹتی ہیں یہاں کتنی نسلیں غلامی کی آزادیاں

یہ جو زنجیر ہے، کیا یہ تقدیر ہے کیا کبھی ہم بھی ہوں گے رہا یا نبیﷺ

تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے

 تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے

کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے

گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلب گار بہت

دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بُجھا دی جائے

وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف

یہ ہوا آج زمانے میں اُڑا دی جائے

وہ یاد آئے کلاس میں گر خیال رکھنا

 وہ یاد آئے کلاس میں گر، خیال رکھنا

پکارا جائے گا رول نمبر، خیال رکھنا

کبھی جو تنہا چلو گے تم ان ہی راہوں پر

لہو رُلائیں گے سارے منظر، خیال رکھنا

نظر میں رکھنا تمام پچھلی رفاقتوں کو

بدل رہے ہیں رُتوں کے تیور، خیال رکھنا

اپنے کاسے میں یہ تاوان اٹھا رکھا ہے

 اپنے کاسے میں یہ تاوان اُٹھا رکھا ہے

میں نے اک شخص کا احسان اٹھا رکھا ہے

پھول کِھلتے ہیں مِری شاخ پہ ایسے جیسے

میں نے ان سے کوئی پیمان اٹھا رکھا ہے

اک تو دروازہ مقفّل ہے ابھی تک میرا

اس پہ دستک نے جو طوفان اٹھا رکھا ہے

کچھ اتنا مضطرب اے دوست تیری یاد کرتی ہے

 کچھ اتنا مضطرب اے دوست تیری یاد کرتی ہے

کہ ان ہم سے ہماری زندگی فریاد کرتی ہے

خزاں کا راز کچھ ہو، ہم تو بس اتنا سمجھتے ہیں

چمن کو خود چمن ہی کی فضا برباد کرتی ہے

تغافل کا سبب ہے خود محبت کی ہمہ گیری

اسے کیا یاد آئے جس کو دنیا یاد کرتی ہے

خدا ناراض ہے ہم سے

 اجتماعی دعا کے نام


خدا ناراض ہے ہم سے

خدا کو ماننے والو

دعائیں مانگنے والو

کبھی یہ بھی ذرا سوچو

ہزاروں ذاکر و زاہد

Friday 23 June 2023

یا محمد آپ کے در سے مرا ناتا رہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یا محمدﷺ آپ کے در سے مِرا ناتا رہے

یا محمدﷺ آپ کے در سے کرم ملتا رہے

یا محمدﷺ آپ کی گلیوں کی خاکی خاک میں

آپﷺ تو ہیں نور رب کا اور اک ناپاک میں

یا محمدﷺ آپ کے قدموں میں ہی جیون بسے

آپ کی یادوں سے میرے دل کا یہ آنگن بسے

ہاں اسی شعر کا رنگ اور جمال اچھا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہاں اسی شعر کا رنگ اور جمال اچھا ہے

جس میں آ جائے مدینے کا خیال، اچھا ہے

اشک آنکھوں سے ندامت کے بہے جاتے ہیں

میرے چہرے کا یہی رنگِ ملال اچھا ہے

ایک پل چین نہیں ہجرِ مدینہ میں مجھے

کون کہتا ہے کہ بیمار کا حال اچھا ہے

سرور عشق کی منزل محمد ہیں محمد ہیں

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سرور عشق کی منزل محمدﷺ ہیں محمدﷺ ہیں

غموں کے بحر کا ساحل محمدﷺ ہیں محمدﷺ ہیں

جہاں کے ہادئ کامل محمدﷺ ہیں محمدﷺ ہیں

خُدا کے قُرب کی منزل محمدﷺ ہیں محمدﷺ ہیں

🕮 محمدﷺ لائے ہیں قانونِ ربّی صُورتِ قُرآں

زمیں پر مُنصف و عادل محمدﷺ ہیں محمدﷺ ہیں

وہی ہے زاد شفاعت وہی ہے چارۂ غم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہی ہے زادِ شفاعت، وہی ہے چارۂ غم

جو ایک نامﷺ، سرِ نامۂ عمل ہے رقم

صدائے حرفِ شکستہ کا حُزن لاحاصل

کہ بے طلب ہے کرم بار دستِ خیرِ اتمؐ

وہ حرز گاہِ سکینت میں ہیں قرار نصیب

جنہیں شفاعتِ کُبریٰ سے ہے نوید بہم

کٹی عشق نبی میں زندگی صدیق اکبر کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کٹی عشق نبیﷺ میں زندگی صدیق اکبرؓ کی

بنی حق کی رضا ہر اک خوشی صدیق اکبرؓ کی

جہاں میں چار سُو ہے روشنی صدیق اکبرؓ کی

نرالی شمع روشن اک ہوئی صدیق اکبرؓ کی

سرِ عرشِ بریں شہرت ہوئی صدیق اکبرؓ کی

ولی کرتے پھریں سب چاکری صدیق اکبرؓ کی

تیری سبز آنکھوں سے جو مے پی رہا ہوں

 تیری سبز آنکھوں سے جو مے پی رہا ہوں

کھویا حُسن میں تیرے جو میں جی رہا ہوں

دل میں میرے ہیں بہت بیتابئ الفت کے ولولے

خاطر امتحانِ عشق کے بیابانوں میں بھی رہا ہوں

چاہت اِک نشہ ہے اے میرے دوست کیا بتاؤں

میں جو خوابِ لذت میں ڈوبا ہی رہا ہوں

تو میری روح میں سما تو سہی

 تُو میری روح میں سما تو سہی 

اپنا کہہ کے کبھی بلا تو سہی

کٹ ہی جائے کا درد کا موسم

اس توقع پہ مُسکرا تو سہی

ایک مدت سے تُو نہیں پوچھا

زخمِ نَو پھر کوئی لگا تو سہی

عجیب شور ہے سارا جہان بولتا ہے

 عجیب شور ہے سارا جہان بولتا ہے

مِرے یقین کے آگے گمان بولتا ہے

اسے کہو؛ کہ وہ حصہ بنے کہانی کا

یہ جو کوئی بھی پس داستان بولتا ہے

سماعتوں پہ فسوں طاری ہونے لگتا ہے

وہ ایسی شان سے اردو زبان بولتا ہے

کسی کتاب نہ کاغذ نہ ہی قلم سے ہوا

 کِسی کتاب نہ کاغذ نہ ہی قلم سے ہوا

ہمارے غم کا مداوا تمہارے غم سے ہوا

جہاں میں آئے تو رونے لگے غنیمت سے

یہ کارِ زیست تھا، آغاز ہی جنم سے ہوا

کسی کی دِید نے حالت سنوار کر رکھ دی

ہمارے زخم کا مرہم بھی چشمِ نم سے ہوا

گوشہ نشین با وفا مجھ سے نہاں ہے کس لیے

 گوشہ نشینِ با وفا، مجھ سے نہاں ہے کس لیے

اس مِرے خستہ دل پہ یوں، رُوئے گراں ہے کس لیے

دل تو مِرا ہے جا تِری، کارگہہ وفا تِری

آج تِرا نفس نفس زخمِ سِناں ہے کس لیے

چشمۂ خضرؑ تُو مِرا، آبِ حیات تُو ہی ہے

آتشِ ہجر سے مِرا خُشک دہاں ہے کس لیے

ازل سے تا بہ ابد لم یزل ہے ذکرِ نبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ازل سے تا بہ ابد لم یزل ہے ذکرِ نبیﷺ

جوازِ رفتہ و آئینہ کل ہے ذکرِ نبیﷺ

گِرے ہوؤں کو اٹھائے حضورِ کی نسبت

دمِ فتادگی کیا بر محل ہے ذکرِ نبیﷺ

خدا کا شکر، نہیں اور کچھ لبوں پہ مِرے

مِری زبان پہ وقتِ اجل ہے ذکرِ نبیﷺ

باریابی کے لیے آقا ترستا میں بھی ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


باریابی کے لیے آقاﷺ ترستا میں بھی ہوں

اک نگاہِ مہرباں کہ دل گرفتہ میں بھی ہوں

یہ مِرا وجدان کہتا ہے کہ شہرِ نُور میں

خاک کے ذروں میں شامل جستہ جستہ میں بھی ہوں 

آپﷺ کے دربار میں نادم، خجل با چشمِ نم

دست بستہ لفظ بھی ہیں دست بستہ میں بھی ہوں

Thursday 22 June 2023

یہ سر ہے صدقہ نبی کا اتارنے کے لیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ سر ہے صدقہ نبیؐ کا اتارنے کے لیے

یہ زندگی ہے محمدﷺ پہ وارنے کے لیے

یہ دل ہے یادِ نبیؐ سے سنوارنے کے لیے

ذباں ہے ہر گھڑی انؐ کو پکارنے کے لیے

حیات عشق میں انؐ کے گزاریے ایسے

وہؐ خود ہی آئیں لحد میں اتارنے کے لیے

مجھ کو دکھا کے روضۂ اطہر حضور نے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ کو دکھا کے روضۂ اطہر حضورﷺ نے

چمکا دیا ہے میرا مقدر حضورﷺ نے

دُھندلا نہیں سکے گی اسے گردشِ حیات

آنکھوں میں بھر دیا ہے وہ منظر حضورﷺ نے

ہچکی سی بندھ گئی تھی مواجہ کے سامنے

دستِ تسلی رکھ دیا دل پر حضورﷺ نے

صلی اللہ کا ورد کروں پل میں لاکھ بار

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


صلی اللہ کا وِرد کروں پل میں لاکھ بار

عرفاں کی رفعتوں کے اے بے مثل تاجدار


قرآن ہے صحیفہ تو تفسیر آپﷺ ہیں

اسلام کے ظہور کی تنویر آپﷺ ہیں

اور راز کن کے آپﷺ فقط آپﷺراز دار

عرفاں کی رفعتوں کے اے بے مثل تاجدار

باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے

باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے

سورج چُھوا نہ تھا کہ مِرے ہاتھ جل گئے

یہ حیرتوں کے بیچ میں حیرت زدہ نقوش

کیسے تماش بین تھے پتھر میں ڈھل گئے

جذبات میں کچھ اس طرح اس کا بدن تھا سُرخ

زنجیر آہنی کے کڑے ہی پگھل گئے

ساحل پہ مرادوں کا سمندر نہیں آیا

 ساحل پہ مُرادوں کا سمندر نہیں آیا

وہ شہر میں ہو کر بھی مِرے گھر نہیں آیا

دروازے پہ دستک ہوئی زنجیر بھی کھنکی

جھونکا تھا ہوا کا کوئی اندر نہیں آیا

تُو جب سے مجھے چھوڑ کے پردیس گیا ہے

دُنیا میں مِری کوئی سکندر نہیں آیا

اب میں بیر نہیں چنتی میں پیلے پتے چنتی ہوں

 پیلے پتے


گاؤں کا اک کچا سا گھر

گھر کے صحن میں بیری کا اک پیڑ

پیڑ پہ بولتے طوطے

اور ایک مانوس سی آواز؛

آؤ نا؛ دیکھو کتنے بیر چُنے ہیں میں نے

بخشش کے واسطے کئی آسانیاں بھی ہیں

 بخشش کے واسطے کئی آسانیاں بھی ہیں

رحمت بھی ہے ہماری پشیمانیاں بھی ہیں

ویسے تو زندگی میں پریشانیاں بھی ہیں

ماں کی دُعا ہو ساتھ تو آسانیاں بھی ہیں

آنچل ہے رُخ پہ پھر بھی ہیں نظریں جُھکی ہوئی

یعنی حیا میں ان کی پشیمانیاں بھی ہیں

اس عالم ادراک میں جب اس کی کمی تھی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اس عالمِ ادراک میں جب اس کی کمی تھی

وہ کیا تھا جسے چشمِ ازل ڈھونڈ رہی تھی

فاراں سے تِری ساعت آمد کوئی پوچھے

صدیوں یہ سحر نُور کے دھاروں سے دُھلی تھی

خالق تو ہے آزاد زماں اور مکاں سے

جو طُور پہ پھیلی تھی وہ پرچھائیں تِری تھی

ہر موج ہوا زلف پریشان محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر موج ہوا زلف پریشانِ محمدﷺ

ہے نُور سحر صورتِ خندانِ محمدﷺ

کچھ صبحِ ازل کی خبر نا شامِ ابد کی

بے خود ہوں تہِ سایۂ دامانِ محمدﷺ

تو سینہ صدیقؓ میں اک رازِ نہاں ہے

اللّٰہ رے، اے صورتِ جانانِ محمدﷺ

شہر طیبہ سے وہاں تازہ ہوا آتی ہے

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


‎شدتِ حبس جہاں دھوپ بڑھا آتی ہے

‎شہرِ طیبہ سے وہاں تازہ ہوا آتی ہے

‎ایسے آتی ہے مِری سمت نبیؐ کی رحمت

‎جیسے گلشن میں کوئی بادِ صبا آتی ہے

‎جب بھی باندھا ہے سفر جانبِ طیبہ میں نے

‎سائباں بن کے مِرے سر پہ گھٹا آتی ہے

لب حروف پہ ہے طرفہ کپکپاہٹ سی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لبِ حروف پہ ہے طُرفہ کپکپاہٹ سی

اُتر رہی ہے خیالوں میں سرسراہٹ سی

چٹک رہی ہیں دعاؤں کی شاخ پر کلیاں

ہر ایک شب میں شبِ قدر کی ہے آہٹ سی

شکستگی سے بچا لیجیے حضورﷺ مجھے

نگل نہ جائے کہیں مجھ کو بھربھراہٹ سی

Wednesday 21 June 2023

دل کے حریم شوق میں ایک ہے نام اور بس

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل کے حریمِ شوق میں ایک ہے نام اور بس

اُس پہ درود اور بس، اُس پہ سلام اور بس

بہرِ نیازِ نعتِﷺ نَو، بہرِ جوازِ حرفِ دل

عرضِ خیالِ خام کو مژدۂ تام اور بس

نُدرت حرف بے نشاں، جودتِ جذب بے نمو

پیشِ حضورﷺ لایا ہُوں خام کلام اور بس

زندگی اک سیراب کے پیچھے

 سفرِ جستجو میں بہت آگے نکل کر 

یہ احساس ہوا کہ 

زندگی اک سیراب کے پیچھے ہے

تعبیر جس کی ہے ناممکنات میں شمار 

اک عرصے سے میری نیند

اُس خواب کے پیچھے ہے

کہو تو کیسے یہ نہر فرات چلتی ہے

 کہو تو کیسے یہ نہرِ فرات چلتی ہے

زمین پہ لے کے غمِ کائنات چلتی ہے

ہر ایک موج سے آتی ہے العطش کی آواز

ہر ایک لہر میں سکینہؑ کی بات چلتی ہے

حسینؑ سب کا ہے لیکن کوئی حسینؑ کا نہیں

جہاں میں سیرتِ اہلِ منات چلتی ہے

میری جاں تجھ کو کیا مشکل پڑی ہے

 میری جاں تجھ کو کیا مُشکل پڑی ہے

مجھے تیری ادا مشکل پڑی ہے

بِنا تیرے یہاں پہ جی رہا ہوں

زمانے کی ہوا مشکل پڑی ہے

رہو اس دل کے ہی نزدیک اب تم

اسے تیرے بِنا مشکل پڑی ہے

میں اپنا نام اور اپنا مقام جانتا ہوں

 میں اپنا نام اور اپنا مقام جانتا ہوں

جو شخص کرتا ہے مجھ کو سلام جانتا ہوں

وہ کیوں کرتا ہے مِرا احترام؟ جانتا ہوں

میں اس کے دل میں ہے جو کچھ تمام جانتا ہوں

وہ آ رہا ہے سدا شہر میں قتال کے بعد

امیرِ شہر کا میں انصرام جانتا ہوں

جب درد کی زبان میں کچھ بولتے ہیں ہم

 جب درد کی زبان میں کچھ بولتے ہیں ہم

بہری سماعتوں میں بھی رس گھولتے ہیں ہم

ہوتی ہیں کائنات کی سانسیں بھی مُشک بُو

بابِ گُلِ اُمید کو جب کھولتے ہیں ہم

سادہ دلی سے کھائے ہیں دھوکے قدم قدم

ہر آدمی کو پہلے نہیں تولتے ہیں ہم

کس قدر بری ہو تم

 کس قدر بُری ہو تم

ایک سر پھری ہو تم

خود کو کیا سمجھتی ہو

کیا کوئی پری ہو تم

ہیں لہو لہو آنکھیں

خود سے پھر لڑی ہو تم

بدلے بدلے ہیں اشارے آج کل

 بدلے بدلے ہیں اشارے آج کل

سوچتے ہو کس کے بارے آج کل

آنکھ میں کیوں ہے اداسی شام سی

پوچھتے رہتے ہیں سارے آج کل

جان لے لیتا ہے تنہا گھومنا

رات کو دریا کنارے آج کل

خرابی دعا کے اثر میں بھی ہے

 خرابی دعا کے اثر میں بھی ہے

کلی جو ہے کیا وہ نظر میں بھی ہے

سرِ عام رُسوا وہ ہونے چلا ہے

یہی تذکرہ تو خبر میں بھی ہے

جہاں جاؤ محنت تو کرنی پڑےگی

یہی بات دوحہ قطر میں بھی ہے

میرے ایک دوست نے پوچھا ہے

 اس نے پوچھا ہے

٭

میری ایک نظم پڑھ کے

میرے ایک دوست نے پوچھا ہے

یہ نظم آپ نے کب لکھی ہے

اب میں اسے یہ کیسے سمجھاؤں

شاعر کبھی زمان و مکان کے دائرے میں

واعظ کے نفرتوں کے بیانات پر چلے

 واعظ کے نفرتوں کے بیانات پر چلے

چودہ سو سال صرف روایات پر چلے

ہم خود تو کام کرنے سے قاصر رہے مگر

آباء کے فخر اور مباہات پر چلے

مسلم نہیں ہیں رِیشِ مبارک پہ متفق

کُفّار دیکھیۓ تو سماوات پر چلے

Tuesday 20 June 2023

جلوۂ نور محمد کا جو سامان ہوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جلوۂ نورِ محمدﷺ کا جو سامان ہوا

عالمِ خاک پہ اللہﷻ کا احسان ہوا

اپنی مخلوق پہ اللہﷻ مہربان ہوا

ہم گنہگاروں کی بخشش کا بھی امکان ہوا

رنگ اور نور صبا اور مہک پھیل گئی

میرے سرکارؐ کی آمد کا جو اعلان ہوا

عشق بس عشق مصطفیٰ مانگوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عشق بس عشقِ مصطفیٰؐ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

اس دعا سے بڑی دعا کیا ہے

اس سے بڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

قافلہ شہر نبی کوئی جو جاتا دیکھا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قافلہ شہرِ نبیﷺ کوئی جو جاتا دیکھا

دل مِرا ساتھ میں جانے کو مچلتا دیکھا

میرے آقاﷺ کے لگے عرشِ بریں پر نعلین

ایسا تو عرش بریں نے کہاں تلوا دیکھا

درِ سرکارﷺ کو رب نے یہ علو بخشا ہے

”تاج والوں کا یہاں خاک پہ ماتھا دیکھا“

رکھا ہے میں نے کام سدا ایک کام سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رکھا ہے میں نے کام سدا ایک کام سے

آباد گھر کیا ہے درودﷺ و سلام سے

مومن کی سادہ لفظوں میں تعریف ہے یہی

ہو جاں سے بڑھ کے پیار محمدؐ کے نام سے

ممدوحِ دو جہان کی مدحت کا فیض ہے

ملتا ہے یہ جہان بڑے احترام سے

ہے کیا مری مجال میں ہے کیا مری بساط میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے کیا مِری مجال میں، ہے کیا مِری بساط میں

تِرے کرم سے ہُوں شہاؐ! ثنا کے انضباط میں

ابھی تو اِذنِ حرفِ نعت بھی عطا ہُوا نہیں

ابھی سے ہے خیال خم حریمِ احتیاط میں

وہ بارگاہِ ناز کس قدر کرم نواز ہے

دُعا ہے انبساط میں، عطا ہے انبساط میں

محبت میں زباں کو میں نوا سنج فغاں کر لوں

 محبت میں زباں کو میں نوا سنج فغاں کر لوں

شکستہ دل کی آہوں کو حریف ناتواں کر لوں

نہ میں بدلا، نہ وہ بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی

میں کیوں کر اعتبار‌‌ِ انقلابِ ناتواں کر لوں

نہ کر محوِ تماشا اے تحیّر! اتنی مہلت دے

میں ان سے داستانِ درد دل کو تو بیاں کر لوں

عدل کا دن ہے جزا موجود ہے

 عدل کا دن ہے، جزا موجود ہے

جرم کا بدلہ، سزا موجود ہے

حاملینِ خصلتِ فرعون لوگ

کیسے سمجھیں گے خدا موجود ہے

رِندگانِ شہر یک جا ہیں یہاں

رِیت اب بھی دلنوا موجود ہے

شام تک بند رہتا ہے کمرہ مرا

 شام تک بند رہتا ہے کمرہ مِرا

اور کمرے میں تنہا کھلونا مرا

دن کو اُجلی رِدا اوڑھ لیتا ہوں میں

دیکھنا رات کو پھر تماشا مرا

سچ کہا تھا سبھی مجھ سے ناراض ہیں

اب کسی سے نہیں رشتہ ناطہ مرا

جہاں دریچہ نہ کوئی در ہے

 جہاں دریچہ نہ کوئی در ہے

وہی تو انساں کا اصل گھر ہے

اسے عمل سے بناؤ گلشن

حیات کانٹوں کی رہگزر ہے

نہیں ہے پہلو میں اب جو موجود

یہ دل ابھی تو اِدھر اُدھر ہے

بیکسی کا حال میت سے عیاں ہو جائے گا

 بیکسی کا حال میت سے عیاں ہو جائے گا

بے زباں ہونا مِرا گویا زباں ہو جائے گا

شوق سے دل کو مٹا دو، لیکن اتنا سوچ لو

اس کے ہر ذرے سے پیدا اک جہاں ہو جائے گا

دل کے بہلانے کو آؤ آج نالے ہی کریں

آسماں کے ظرف کا بھی امتحاں ہو جائے گا

جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا

 جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا

اس خواب کا سراب بھی اپنا نہیں ہوا

اپنی صلیب سر پہ لیے چل رہے ہیں لوگ

شہرِ سزا میں کوئی کسی کا نہیں ہوا

کہنے کو جی سنبھل تو گیا ہے مگر کہیں

اک درد ہے کہ جس کا مداوا نہیں ہوا

زخم جب میں نے تیری چاہت میں کھائے تھے بہت

 زخم جب میں نے تیری چاہت میں کھائے تھے بہت

معجزہ ایسا ہوا، میں بن گیا شاعر شمیم

اس نے یہ کہہ کر بڑھایا عشق میں میرا مقام

عاشقی میں تُو ہی اول تو ہی ہے آخر شمیم

میرا مذہب ہے محبت بانٹ لینا کُو بہ کُو

اس لیے کہتے ہیں مجھ کو لوگ اب کافر شمیم

خطرہ نہ کر دے جرأت اظہار سوچ لے

 خطرہ نہ کر دے جرأتِ اظہار، سوچ لے

لے سوچ خوب غور سے اک بار، سوچ لے

گاوں میں پھیل جاتی ہے پنکھے کی واردات

بِکتا ہے شہر شہر میں اخبار، سوچ لے

بٹوارہ جائیداد کا ہے، خون کا نہیں

مت کھینچ گھر کے صحن میں دیوار سوچ لے

چاہا نہیں تھا جن کو وہی بے طلب ملے

 چاہا نہیں تھا جن کو وہی بے طلب ملے

"ملنا تھا جن سے وہ نہ ملے اور سب ملے"

رت جب جواں تھی زیست کی وہ ہم سے کب ملے

پت جھڑ کے موسموں میں مِرے یار اب ملے

جو ہر جگہ ہو اس کے لیے جستجو ہی کیا

دَیر و حرم میں شیخ! کہاں تجھ کو رب ملے؟

یونہی دل بیتاب کوئی رات مچل جائے

 یونہی دل بے تاب کوئی رات مچل جائے

اور اس پہ میرا زعم کہ تُو ساتھ مچل جائے

وہ دن بھی دکھائیں گے زمانے کے حوادث

بجلی کی چمک دیکھ کے برسات مچل جائے

دنیا میں کہاں کون بھلا میرے سوا ہے

جو کھا کے محبت میں بڑی گھات مچل جائے

لفظوں میں ان کا نقش کف پا دکھائی دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لفظوں میں ان کا نقشِ کف پا دکھائی دے

نعتِ نبیﷺ کہوں تو مدینہ دکھائی دے

ہر دم ہو جس کو رحمتِ عالم تیرا خیال

طوفان میں بھی اس کو جزیرہ دکھائی دے

نعتِ نبیؐ کے ساتھ میں پڑھتی رہوں درود

مجھ کو یہی نجات کا رستہ دکھائی دے

Monday 19 June 2023

زمین و آسماں گونجے بیک آواز بسم اللہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زمین و آسماں گُونجے بیک آواز، بِسم اللہ

طلوعِ صبحِ مِدحت کا ہوا آغاز، بسم اللہ

حِرا سے کعبہ و عرشِ عُلا تک جلوہ فرمائی

زمینِ دل پہ بھی فرمائیے گا ناز، بسم اللہ

میانِ حشر ہوں گی جب الیٰ غیری کی تجویزیں

کہیں گے ہم گنہگاروں کو چارہ ساز، بسم اللہ

اہل طائف نے اگرچہ انہیں مارے پتھر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اہلِ طائف نے اگرچہ انہیں مارے پتھر

مانگی آقاﷺ نے دعا چھاتی پہ رکھے پتھر

مکہ والوں نے کہا ان کو امین و صادقﷺ

ان کے اخلاق کی تاثیر سے پگھلے پتھر

ان کی گویائی کا اک ادنٰی سا اعجاز ہے یہ

اذن آقاﷺ نے دیا، ہاتھ میں بولے پتھر

اک نام مصطفیٰ ہی فقط جان نعت ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اک نامِ مصطفیٰﷺ ہی فقط جانِ نعت ہے

جواس کے ذیل میں ہے وہ شایانِ نعت ہے

کوئی کلام ہو کہاں شایانِ نعت ہے

قرآنِ پاک ہی ہے جو قرآنِ نعت ہے

الحمد کے الف سے حدِ حرفِ سین تک

کتنا وسیع دیکھیے میدانِ نعت ہے

کسی اور کے خدا سے نہ غرض نہ واسطہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کسی اور کے خدا سے نہ غرض نہ واسطہ ہے

ہے وہی خدا ہمارا جو حضورﷺ کا خدا ہے

یہ جو بزمِ آب و گِل ہے یہ تمام کربلا ہے

جہاں امن وآشتی ہے وہ دیارِ مصطفیٰؐ ہے

یہ جو آدمی کا رتبہ ہے بلند قُدسیوں سے

کسی اور کا نہیں ہے یہ کرم حضورؐ کا ہے

اب تنگی داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اب تنگئ داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ

ہیں آج وہ مائل بہ عطا اور بھی کچھ مانگ

ہیں وہﷺ متوجہ تو دعا اور بھی کچھ مانگ

جو کچھ تجھے ملنا تھا ملا اور بھی کچھ مانگ

ہر چند کے مولا نے بھرا ہے تیرا کشکول

کم ظرف نہ بن ہاتھ بڑھا اور بھی کچھ مانگ

اک نیا دن ڈھلا وقت کے چاک پر شام اترنے لگی

 اک نیا دن ڈھلا

وقت کے چاک پر 

شام اترنے لگی 

پھر سے آنگن میں 

ملنے ماہتاب سے 

روز ملتے ہیں یہ 

میں بھی خاموش اجالوں کی ضیا ہوں جیسے

 میں بھی خاموش اجالوں کی ضیا ہوں جیسے

اپنی دھرتی پہ خدا! تیرا پتا ہوں جیسے

اس کی آنکھوں میں قیامت کی حیا روشن ہے

نِیم خوابیدہ اسے سوچ رہا ہوں جیسے

میرا مسکن نہ ٹھکانہ نہ کوئی راہگزر

میں کوئی سر پھری آوارہ ہوا ہوں جیسے

ذکر تیرا بعد تیرے اے شکیب چلتا رہے

 ذکر تیرا، بعد تیرے

(لخت جگر محمد شکیب اکرم کے لیے)

ذکر تیرا بعد تیرے، اے شکیب چلتا رہے

یہ سبب ہے مغفرت کی ہو دعا تیرے لیے

جب کبھی تیری کمی محسوس ہوتی ہے ہمیں

بس خدا سے مانگتے ہیں رحمتیں تیرے لیے

خواب میں آئے نہ آئے، تیری صورت دل میں ہے

کبھی تو خواب میں آؤ کہ رات بھاری ہے

 کبھی تو خواب میں آؤ کہ رات بھاری ہے

بُجھے چراغ جلاؤ کہ رات بھاری ہے

میری امید کی دُنیا ہے سُونی سُونی سی

ذرا سی آس بندھاؤ کہ رات بھاری ہے

مِرا وجود اداسی کی ایک پرچھائی

مِری حیات پہ چھاؤ کہ رات بھاری ہے

اس زلف کے سودے کا خلل جائے تو اچھا

 اس زلف کے سودے کا خلل جائے تو اچھا

اس پیچ سے دل اپنا نکل جائے تو اچھا

شطرنج میں جی ان کا بہل جائے تو اچھا

اے مہر یہ چال اچھی ہے چل جائے تو اچھا

اس زیست سے اب موت بدل جائے تو اچھا

بے چین ہے دل جان نکل جائے تو اچھا

دوستو میں آپ کے سامنے موت کا اعلان کرتا ہوں

 شکست نامے پر حاشیے

دوستو میں آپ کے سامنے 

قدیم زبان کی موت کا اعلان کرتا ہوں 

اور قدیم کتابوں کی موت کا 

آپ کے سامنے موت کا اعلان کرتا ہوں

بوسیدہ جوتوں کی مانند اپنے چِھدے ہوئے کلام کی موت 

کہنے کو عام رسم شکایات ہو گئی

 کہنے کو عام رسمِ شکایات ہو گئی

لب تک نہ آئی بات مگر بات ہو گئی

ہنس ہنس کے پی لیے غمِ دوراں کے تلخ جام

یوں سازگار گردشِ حالات ہو گئی

زنداں کی شب نظر کے اجالے خیال دوست

یکجا ہوئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی

رات محفل میں زرا سا بھی مجھے ہوش نہ تھا

 رات محفل میں زرا سا بھی مجھے ہوش نہ تھا

اور بجز اُس کے مِرا کوئی گُنہ پوش نہ تھا

بحرِ احسان و کرم میں تِرے، کب جوش نہ تھا

کوئی مجھ سا مگر احسان فراموش نہ تھا

عشق اُس وقت بھی گویا ہی تھا، خاموش نہ تھا

عقل کو ہوش نہ تھا، دل میں زرا جوش نہ تھا

ہمارے دل پہ تمہاری اجارہ داری ہے

 ہمارے دل پہ تمہاری اجارہ داری ہے

مِری یہ زندگی اب زندگی تمہاری ہے

ہوا کے دوش پہ لاتی ہے یہ پیام تِرا

اسی لیے تو بادِ صبا سے یاری ہے

گزرتی تم پہ قیامت تو جان لیتے تم

وہ رات تیرے بِنا ہم نے جو گزاری ہے

راز کہتے ہیں اگر پھر نہ بدنام کیجیے

 راز کہتے ہیں اگر پھر نہ بدنام کیجیۓ

عشق تماشہ ہے تو سرِ عام کیجیۓ

عشق سچا بھی اور ملن کی دعا بھی

جائیے صاحب آپ اور کوئی کام کیجیۓ

اپنے آپ سے نہیں ملا ہوں کئی دن سے

ہو سکے تو ملاقات کا انتظام کیجیۓ

ترک ان دنوں جو یار سے گفت و شنید ہے

 ترک ان دنوں جو یار سے گّفت و شّنید ہے

ہم کو محرّم، اور رقیبوں کو عید ہے

شاید ہمارے قول پہ حبل الورید ہے

ہم سے خدا قریب ہے کعبہ بعید ہے

گُزرا مہِ صیام نہ کیوں پنجۂ شراب

خالی کا چاند یہ نہیں ہے، ماہِ عید ہے

لہو سے زمیں پر لکیریں

 لہو سے زمیں پر لکیریں


ناداں ہو تم

بے خبر ہو کہ

کاغذ پہ کھینچی ہوئی سرحدوں کی

حفاظت کی پاداش میں

کاٹ دیتے ہو جسموں کو لبریز

کہا تھا ایک زیرک نے

 ”مرنا ضروری ہے“


کہا تھا ایک زیرک نے

سکوں گر چاہتے ہو تم

تو ہو گا تم کو پھر مرنا

کہ اب تو اس جہاں میں یہ

گراں مایہ جو دولت ہے

مجھ سے ملو تم باتوں کی چائے پر

 مجھ سے ملو تم


مجھ سے ملو تم

باتوں کی چائے پر

کہانی کے پیچ میں

بچپن کی شور کرتی ریل میں

ماضی کے نکڑ پر

افلاطونی عشق کی موج میں

اک سراپا بسا ہے سراب جیسا

 اک سراپا بسا ہے سراب جیسا

شگفتہ چہرہ ہے وہ گلاب جیسا

برسوں تلاش کِیا میں نے اسے

رنگوں میں ملبوس وہ خواب جیسا

سرور بن کر چھا گیا وہ

ڈھونڈے سے نہ ملے جناب جیسا

سوچنا مجھ کو مسکرا دینا

 سوچنا مجھ کو مسکرا دینا

نام لکھنا مِرا، مٹا دینا

زخم بھرنے لگے ہیں ماضی کے

اب کوئی درد دیرپا دینا

کھولنا جب کتاب ماضی کی

پُھول سُوکھے ہوئے گِرا دینا

Sunday 18 June 2023

یہ بارگاہ نبی ہے یہاں سنبھل کے چلو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ بارگاہِ نبیؐ ہے، یہاں سنبھل کے چلو 

دیارِ مصطفویؐ ہے، یہاں سنبھل کے چلو 

دیارِ عشق میں، آدابِ عشق لازم ہیں

عجیب دل کی لگی، یہاں سنبھل کے چلو 

برس رہا ہے بہت ٹوٹ کر سحابِ کرم

عطا کی دھوم مچی ہے، یہاں سنبھل کے چلو

اے عشق نبی میرے دل میں بھی سما جانا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے عشق نبی میرے دل میں بھی سما جانا

مجھ کو بھی محمدﷺ کا دیوانہ بنا جانا

وہ رنگ جو رومی پر جامی پہ چڑھایا تھا

اس رنگ کی کچھ رنگت مجھ پہ بھی چڑھا جانا

قدرت کی نگاہیں بھی جس چہرے کو تکتی تھیں

اس چہرہ انوارﷺ کا دیدار کرا جانا

بروح طیب و طاہر درود پڑھتے ہوئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


بروحِ طیب و طاہر، درود پڑھتے ہوئے

رواں ہیں طیبہ مسافر، درود پڑھتے ہوئے

تجلیات کے اسرار میں نہائے ہوئے

درود خواں ہوئے حاضر، درود پڑھتے ہوئے

سلام، گنبدِ خضرا کی شانِ رفعت کو

نظر اٹھاتے ہیں زائر، درود پڑھتے ہوئے

ہر ایک صفت کا تیری ذات سے حصار کیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر ایک صفت کا تیری ذات سے حصار کیا

خُدا نے تجھﷺ کو مشیعت کا شاہکار کیا

تِرےؐ کرم نے فقیروں کی جھولیاں بھر دیں

تِریؐ نظر نے گداؤں کو شہریار کیا

تِرےؐ وجود کا اعجاز ہے کہ انساں نے

صفات و ذاتِ الٰہی کا اعتبار کیا

دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا

وہ محبوبِ خداﷺ جذبوں کی وسعت دیکھنے والا

جہاں میں سننے والا ان کہے الفاظ چاہت کے

وہی ہے اَن لکھے حرفِ ارادت دیکھنے والا

مکان و لامکاں کی شوکتیں زیرِ قدم اس کے

وہ موجود و عدم کی ہر ولایت دیکھنے والا

نئی سحر ہے یہ لوگو نیا سویرا ہے

 نئی سحر ہے یہ لوگو! نیا سویرا ہے

طلوع ہو چکا سورج مگر اندھیرا ہے

خدا ہی جانے یہ دل کب خدا کا گھر ہو گا

ابھی تو اس میں بُتانِ ہوس کا ڈیرا ہے

ابھی نہ دے مجھے آواز اے غمِ جاناں

ابھی تو شہرِ وفا میں بڑا اندھیرا ہے

امتحاں در امتحاں تقسیم باب زندگی

 امتحاں در امتحاں تقسیم بابِ زندگی

دیکھنے میں کتنا دلکش ہے سرابِ زندگی

زندگی بے مول بے مایہ ہوئی ہے اس قدر

خون سے لکھا گیا ہے انتسابِ زندگی

روشنی تھوڑی سے دامن میں بچا لینا ضرور

کیا خبر، ڈھل جائے کب یہ آفتابِ زندگی

صفت کرتے ہو میری اور مرا ہی نام لیتے ہو

 صفت کرتے ہو میری اور مرا ہی نام لیتے ہو

تجاہل عارفانہ سے عجب تم کام لیتے ہو

کھڑا ہوں میں جو قدموں پر تو یہ تیری عنایت ہے

کبھی جو گرنے لگتا ہوں، مجھے تم تھام لیتے ہو

جہانِ حرص میں تجھ سی سخاوت ہو تو بتلاؤ

بَھلا دیتے ہو دُوجوں کو مگر خود خام لیتے ہو

پھر نوید آج ہمیں کوئی سنائی نہ گئی

 پھر نوید آج ہمیں کوئی سنائی نہ گئی

پھر سرِ عرش غریبوں کی دھائی نہ گئی

سر کٹایا گیا،۔ توقیر گھٹائی نہ گئی

نیزۂ عشق پہ عاشق کی بڑائی نہ گئی

شہر والوں کی زباں بن کے وہ جو گویا تھا

اس کے حق میں کوئی آواز اٹھائی نہ گئی

چراغ زیست ہے بجھنے کو ہائے نا کیجئے

 چراغِ زیست ہے بجھنے کو ہائے نا کیجیۓ

قضا کی سیج پہ اب اور نا خطا کیجیۓ

نہ کارِ خیر کِیا جس نے زندگی میں کوئی

وہ کہہ رہا ہے بخشش کی اب دُعا کیجیۓ

لِکھے کو گر نہ بدل پاؤ زورِ بازو سے

لِکھے ہوئے پہ ہی پھر آپ اکتفا کیجیۓ

قلبِ جاں کو راحت ہے ہاں یہی محبت ہے

 ہاں یہی محبت ہے

وقت کے سمندر میں 

طوفان کتنے آئے ہیں

اور کتنے آئیں گے

سب سے بچ نکلنا ہے

اور تیرے میرے درمیاں

تجھ میں تو ایک خوئے جفا اور ہو گئی

 تجھ میں تو ایک خوئے جفا اور ہو گئی

میں اور ہو گیا، نہ وفا اور ہو گئی

گُل کا کہیں نشاں ہے نہ بُلبل کا ذکر ہے

دو روز میں چمن کی ہوا اور ہو گئی

آمد کی سُن کے کھولی تھی بیمارِ غم نے آنکھ

تم آ گئے، اُمیدِ شفا اور ہو گئی

وہ کون ہے کہ جسے اس کا لمس حاصل ہے

 وہ کون ہے کہ جسے اس کا لمس حاصل ہے 

وہ کون ہے کہ جسے وہ بدن لُبھاتا ہے 

بہار کس کے دریچوں میں کر رہی ہے قیام 

اب اس کی زُلفِ مُعطر کا کس پہ سایہ ہے 

ہر ایک فکر سے آزاد کون سوتا ہے؟ 

کسے وہ ہونٹ نشہ دے کہ اب سُلاتے ہیں 

دیر میں ہے وہ نہ کعبہ میں نہ بتخانے میں ہے

 دِیر میں ہے وہ نہ کعبہ میں نہ بت خانے میں ہے

ڈھونڈھتا ہوں جس کو میں وہ میرے کاشانے میں ہے

یہ تِرا حسنِ تصور تیرے کاشانے میں ہے

تُو نہ آبادی میں ہے غافل نہ ویرانے میں ہے

ہے بجائے خود زمانہ بے کسی میں مبتلا

اب مروّت کا نشاں اپنے نہ بیگانے میں ہے

بہر پرواز اگر اپنی خوشی سے اڑتے

 بہرِ پرواز اگر اپنی خوشی سے اُڑتے

ہم بھی شہباز ہیں ہم بھی بہت اونچے اڑتے

ایک صحرا ہے کہ بُجھتی ہی نہیں پیاس اس کی

مُدتیں گزریں سمندر کے کنارے اڑتے

فتح کے جشن پہ چھوڑے تھے جو ہم نے یارو

آسمانوں میں کہاں تک وہ غُبارے اڑتے

Saturday 17 June 2023

موجۂ نور محمد میں بسائے ہوئے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


موجۂ نورِ محمدﷺ میں بسائے ہوئے ہیں

نعت کے پھول جو قرطاس پہ آئے ہوئے ہیں

کیوں نہ قربان عقیدت میں وہ ہو جائیں حضورؐ

سر پہ نعلین کی نسبت جو اٹھائے ہوئے ہیں

اک نواسے کی محبت میں کِیا سجدہ طویل

یوں مؤدت کا سبق ہم کو سکھائے ہوئے ہیں

شان در محبوب خدا اور ہی کچھ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


شانِ درِ محبوبِﷺ خدا اور ہی کچھ ہے

دربارِ محمدﷺ بخدا اور ہی کچھ ہے

چھائی ہوئی ہیں رحمتِ باری کی گھٹائیں

اس شہرِ محبت کی فضا اور ہی کچھ ہے

دے دیتے ہیں سائل کو زباں کھلنے سے پہلے

سرکارﷺ کا اندازِ عطا اور ہی کچھ ہے

ترا سراپا زمانے میں تمکنت میری

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


تِرا سراپا زمانے میں تمکنت میری

تِری حیات کا اک لمحہ سلطنت میری

وگرنہ لقمۂ دوزخ ہی بن گئے ہوتے

سنوار دی تِری رحمت نے عاقبت میری

میں ایک ذرۂ کم تر ہوں تیری چوکھٹ کا

خرد میں کس کے سمائے گی منزلت میری

جب سے ضو ریز و ضیاء بار ہے سینے میں درود

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


جب سے ضو ریز و ضیاء بار ہے سینے میں درود

خیرزَا ہے مِرے کھانے، مِرے پینے میں درود

اک اک سانس میں ہے عمرِ خضر کا سامان

برکت انگیز ہوا ہے مِرے جینے میں درود

سرِ فہرست، عمل نامہ میں ہے صلِّ علیٰ

سرِ انبار، ثوابوں کے خزینے میں درود

آئی ہے جالیوں سے بھی شاید لگا کے ہاتھ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آئی ہے جالیوں سے بھی شاید لگا کے ہاتھ

کیا کچھ مہک رہے ہیں یہ بادِ صبا کے ہاتھ

شاہد ہے مارَمیتَ کی آیت، اس امر پر

یعنی نبیؐ کے ہاتھ ہیں بیشک خدا کے ہاتھ

وہ کامیابِ عشقِ خدا و رسولﷺ ہے

جس کی زمامِ کار ہے صبر و رضا کے ہاتھ

یہ میرے دل کی پگڈنڈی پہ چلتی نظم ہے کوئی

 بُجھارت


یہ میرے دل کی پگڈنڈی پہ چلتی نظم ہے کوئی 

کہ سیل وقت کی بھٹکی ہوئی اک لہر سا لمحہ 

جو آنچل پر ستارے اور ان آنکھوں میں آنسو ٹانک دیتا ہے 

ستاروں کی چمک 

اور آنسوؤں کی جھلملاہٹ میں 

داستاں عشق کی انجام تک آ پہنچی ہے

 داستاں عشق کی انجام تک آ پہنچی ہے 

بات اب حسرت ناکام تک آ پہنچی ہے 

جانے کیا حال ہو رِندان بلا نوش کا اب 

مے کشی درد تہ جام تک آ پہنچی ہے 

بات پھیلی ہے تِرے ظلم کی شہروں شہروں 

داستاں تیری مرے نام تک آ پہنچی ہے 

کبھی ادھر جو سگ کوئے یار آ نکلا

 کبھی ادھر جو سگِ کُوئے یار آ نکلا

گُماں ہوا مِرے ویرانہ میں ہُما نکلا

رُخ اس کا دیکھ ہوا زرد نیر اعظم

سُنہرے بُرج سے جس دم وہ مہ لقا نکلا

وہ سُن کے پاک محبت کا نام کہتے ہیں

ہماری جان کو لو یہ بھی پارسا نکلا

خدا کا شکر میرا دل کسی بہانے لگا

 ستاروں پلکوں پہ معمول سے سجانے لگا

خدا کا شکر، میرا دل کسی بہانے لگا

میں گھر گیا تو مجھے خامشی گلے سے ملی

اور آئینہ تو بس اک جشن سا منانے لگا

یہ حوصلہ ہی مِری جیت تھا کہ تھکنے پر

میں اپنا سر تو کبھی پاؤں خود دبانے لگا

حکم قضا کو کیا کہوں خوئے رضا کو کیا کروں

 حکمِ قضا کو کیا کہوں خوئے رضا کو کیا کروں

تیری جفا کا کیا گِلہ اپنی وفا کو کیا کروں

راہِ حیات تا عدم پیچ بہ پیچ خم بہ خم

راہنما سے کیا کہوں راہنما کو کیا کروں

صبحِ شبِ شباب تک خواہشیں خواب ہو گئیں

دستِ طلب تو رہ گیا دستِ دعا کو کیا کروں

لکیریں ٹاپتے ٹاپتے دیکھتے رہ جائیں گے

 لکیر


٭رتھ فاؤ٭

کاش تم نے

کوڑھی دماغوں کے

علاج کے لیے بھی کوئی نسخۂ اکسیر

تجویز کر دیا ہوتا

ہم تری بزم سے بازار میں جب لائے گئے

 ہم تِری بزم سے بازار میں جب لائے گئے

دور تک ساتھ لِپٹے ہوئے کچھ سائے گئے

ہائے، یہ شوق کہ ہر لب پہ تھا پیغامِ سفر

وائے، یہ وہم کہ ہر گام پہ ٹھہرائے گئے

گرچہ ہر بزم میں اک قصہ تِرا چلتا تھا

پھر بھی کچھ قصّے کسی طرح نہ دُہرائے گئے

خدا سے روز ازل کس نے اختلاف کیا

 خدا سے روزِ ازل کس نے اختلاف کیا

وہ آدمی تو نہ تھا، جس نے انحراف کیا

میں کیا بتاؤں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری

کِرن نے قطرۂ شبنم میں جب شگاف کیا

وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے

خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

 متاعِ بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی​

مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی​

تِرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا​

یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی​

حجاب اکسیر ہے آوارہ کُوئے محبت کو​

میری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی

اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا

 اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا

گاہ عابد ہوں خدا کا، گہہ پُجاری رام کا

لوٹتے ہیں جس کو سن سن کر ہزاروں مرغ دل

ہو رہا ہے ذکر کس کے گیسوؤں کے دام کا

چشمِ مستِ یار کا ہم چشم لو پیدا ہوا

دیکھنا اب پوست کھینچا جائے گا بادام کا

Friday 16 June 2023

دارالاماں یہی ہے حریم خدا کے بعد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دارالاماں یہی ہے حریمِ خدا کے بعد

ہم کس کے در پہ جائیں درِ مصطفیٰؐ کے بعد

پُر نُور کتنا خاکِ مدینہ سے دل ہوا

آئینہ کیسا صاف ہوا ہے جِلا کے بعد

روزِ جزا سے قبل شفاعت کریں گے آپؐ

جنّت بھی آپؐ بخشیں گے روزِ جزا کے بعد

ہمیشہ قریۂ امی لقب میں رہتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہمیشہ قریۂ اُمی لقب میں رہتے ہیں

جہاں کہیں بھی ہوں حدِ ادب میں رہتے ہیں

ازل کے دن سے ہیں تیرے غلام ابنِ غلام

غرورِ نسبت و فخرِ نسب میں رہتے ہیں

سوادِ روح میں صلِ علیٰؐ کی خوشبو ہے

ثنا کے حرف جو دامانِ لب میں رہتے ہیں

گدازِ نعتﷺ، بشر دوستی سکھاتا ہے

تری حمد میں کیا کروں اے خدا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تِری حمد میں کیا کروں اے خُدا

مِرا علم کیا ہے، مِری فکر کیا

میں ہُوں بے خبر، تُو خبیر و علیم

میں حادث ہُوں اور ذات تیری قدیم

مکاں ہے تِرا، لامکاں ہے تِرا

زمیں ہے تِری، آسماں ہے تِرا

اک نظر ہو تو کیا سے کیا ہو جاؤں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اک نظر ہو تو کیا سے کیا ہو جاؤں

میں جو پتھر ہوں، آئینہ ہو جاؤں

لوگ کعبہ سے سُوئے طیبہ جائیں

میں تو بس انؐ کا راستہ ہو جاؤں

انؐ کی گلیوں کا قرض ہوں میں تو

دیکھیۓ کب وہاں ادا ہو جاؤں

شہیدان وفا کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شہیدانِؑ وفا کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں

حسینؑ ابنِ علیؑ کی داستانِ غم سناتے ہیں

دھواں جنگل میں پھیلا ہے لگی ہے آگ خیموں میں

یہ ہیں اوراقِ قرآں اشقیاء جن کو جلاتے ہیں

بپا ہے دو جہاں میں آج بھی شبیرؑ کا ماتم

سُنا ہے لوگ پردیسی کو اکثر بھول جاتے ہیں

ہر لمحۂ حیات دل و جاں پہ بار ہے

 ہر لمحۂ حیات دل و جاں پہ بار ہے

زندہ ہوں اس لیے کہ تِرا انتظار ہے

گُل چاک پیرہن ہے، کلی دلفگار ہے

شاید اسی کا نام چمن میں بہار ہے

ہزار غم، ہزار شکر کے قابل سہی، مگر

دل جس سے ٹوٹ جائے وہی سازگار ہے

گزری ہوئی وہ رت کبھی آنی تو ہے نہیں

 گزری ہوئی وہ رُت کبھی آنی تو ہے نہیں

دل نے مگر یہ بات بھی مانی تو ہے نہیں

اے قصہ گو! یہ لہجہ تِرا یوں کبھی نہ تھا

کچھ تو بتا؟ یہ کیا ہے، کہانی تو ہے نہیں

کچھ اس کے مسکرانے سے اندازہ ہو تو ہو

اندر کی چوٹ ہے، نظر آنی تو ہے نہیں

نظر کی روح کی دل کی صعوبتیں بھی گئیں

نظر کی روح کی دل کی صعوبتیں بھی گئیں 

گیا شباب تو وہ ساری الجھنیں بھی گئیں 

گئی جوانی تو آئی شعور کی دولت 

قدم قدم پہ زمانے سے رنجشیں بھی گئیں 

شبِ وصال کا ارماں نہ فکرِ شامِ الم 

وہ کاروبارِ جنوں کی نوازشیں بھی گئیں 

حریم درد مـیں ہوں کرب کے حصار میں ہوں

 حریم درد مـیں ہوں کرب کے حصار میں ہوں

میں کس اُمید پہ کیوں، کس کے انتظار میں ہوں

ملے گی ایک نہ اک دن وفا کی منزل بھی

میں بن کے دُھول محبت کی رہگزار میں ہوں

پتا بھی ہـے مِری باری کبھی نہ آئے گی

میں نظم و ضبط کا پابند ہوں قطار میں ہوں

تری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے

 تِری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے

نہ یہ آسمان ہے نہ یہ زمیں نہ یہ صبح ہے نہ یہ شام ہے

تمہیں علم کچھ جو ہو عالمو! تو بتا دو مجھ کو نہ چپ رہو

کہ شرابِ عشق کا مست ہوں، یہ حلال ہے کہ حرام ہے؟

کبھی گِرد یار کے گھومنا، کبھی دیکھ دیکھ کے جھومنا

یہی حیرتی کا ہے مشغلہ یہی دُھن ہے اور یہی کام ہے

کبھی سیرِ مسجدِ عشق کر، تو پتا ملے تجھے بے خبر

دنیائے رنگ و بو سے کنارہ نہیں کیا

 دنیائے رنگ و بُو سے کنارہ نہیں کیا

اچھا کیا جو ہم نے دکھاوا نہیں کیا

ہم جسم کو بچا نہ سکے گرد سے مگر

یہ تو کیا کہ رُوح کو میلا نہیں کیا

اوروں پر اپنی ذات کی ترجیح تو بجا

ہم نے کچھ اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا

اے کینسر تجھے کینسر لگ جائے

 بھولی بسری آنکهوں کو

جب  اس میں تُو اُمید دیکھے

تِری انگ انگ میں درد اُٹھے

تُو آ کر ان پر وار کرے

وه آنکھیں جب اس وار کو سمجھیں

تب تُو اپنا کام تمام کرے

وہ شخص جس نے خود اپنا لہو پیا ہو گا

 وہ شخص جس نے خود اپنا لہو پیا ہو گا

جیا تو ہو گا، مگر کس طرح جیا ہو گا

تمہارے شہر میں آنے کی جس کو حسرت تھی

تمہارے شہر میں آ کر وہ رو پڑا ہو گا

کسی کی یاد کی آہٹ سی ہے درِ دل پر

کسی نے آج مِرا نام لے لیا ہو گا

مسکراہٹیں سیکھیں قہر کی نگاہوں سے

 مسکراہٹیں سیکھیں قہر کی نگاہوں سے

دادِ سرکشی لے لی ہم نے کج کلاہوں سے

کیا کہیں محبت کا راز کم نگاہوں سے

ہم نے دل بنائے ہیں آنسوؤں سے آہوں سے

اپنی معرفت کا ہم ایک دن سبق دیں گے

دیکھتے چلے جاؤ اجنبی نگاہوں سے

نہ کلیاں مسکراتی ہیں نہ پھولوں پر نکھار آئے

 نہ کلیاں مسکراتی ہیں نہ پھولوں پر نکھار آئے

بڑی بے کیفیوں کے ساتھ ایامِ بہار آئے

کوئی قیمت نہیں ایسے وفا کے عہد و پیماں کی

مجھے جس پر یقیں آئے نہ ان کو اعتبار آئے

جہاں کے چپے چپے پر گماں ہوتا تھا منزل کا

مِری منزل میں ایسے مرحلے بھی بے شمار آئے

ایک مکار کو دوسرے مکار سے خطرہ ہے

 ایک مکار کو دوسرے مکار سے خطرہ ہے

اب درباریوں کو دربار سے خطرہ ہے

کس منہ سے دشمن کا گلہ کریں وہ لوگ

جن کو اپنے ہی سپہ سالار سے خطرہ ہے

کیسے رکھوں میں الزام سر چوروں کے

میرے آنگن کو اپنی دیوار سے خطرہ ہے