دونوں ہی تو سفر میں تھے رُکتے بھلا کہاں
مِلتے بھی تجھ سے دوست تو مِلتے بتا کہاں
بِکھرے تھے اس کی سیج پہ گُلہائے رنگ رنگ
کس کس مہک کو لائی تھی بادِ صبا کہاں
اک شورِ بے کراں ہے تہِ آسماں ابھی
جانے بھٹک رہی ہو مِری التجا کہاں
پہچان بھی دِشاؤں کی باقی نہیں رہی
بھٹکا ہے راستے میں مِرا رہ نما کہاں
سب موسموں کی مار سے کَس بَل نکل گئے
ہارے تھکے سے جسم میں اب وہ جِلا کہاں
برپا ہے انتشار وہ چاروں طرف شکیل
ہونا پڑے گا ان سے نہ جانے جدا کہاں
اطہر شکیل
No comments:
Post a Comment