کوئی نہیں تھا ہنر آشنا تمہارے بعد
میں اپنے آپ سے الجھا رہا تمہارے بعد
یہ میری آنکھیں بڑی تیز روشنی میں کھلیں
میں چاہتا بھی تو کیا دیکھتا تمہارے بعد
ہر ایک بات ہے الجھی ہوئی زبان تلے
ہر ایک لفظ کوئی بد دعا تمہارے بعد
بڑے قرینے سے رشتے سجائے تھے سارے
بکھر بکھر گیا ہر سلسلہ تمہارے بعد
تو کیا کشش بھی مِری لے گئے تم اپنے ساتھ
کوئی تو دیکھتا چہرہ مِرا تمہارے بعد
تمہارے بعد خزاں ہو بہار ہو کچھ ہو
کہاں رُتوں سے مِرا سابقہ تمہارے بعد
بس ایک لمحۂ ہجراں ٹھہر گیا مجھ میں
نہ واقعہ نہ کوئی سانحہ تمہارے بعد
یہ زندگی کا نیا زاویہ کھلا مجھ پر
میں خود سے کتنا قریب آ گیا تمہارے بعد
مِرے مزاج کی یہ بے اصولیاں چاہیں
تمہارے جیسا کوئی دوسرا تمہارے بعد
وہ رنگ رنگ طبیعت سخن سخن حامد
سنو وہ شخص کہیں کھو گیا تمہارے بعد
حامد اقبال صدیقی
No comments:
Post a Comment