Saturday 30 September 2023

کچھ اور سوچنا گناہ تھا

 ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے

بے پناہ


کچھ اور سوچنا گناہ تھا

زبان ہجر میں دعا کا حرف تک نہ یاد آ سکا

غم اتنا بے پناہ تھا


ادا جعفری

ممٹیوں کی اوٹ سے روز ملنے آتی ہے

 ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے


ممٹیوں کی اوٹ سے

روز ملنے آتی ہے

شام آفتاب سے


نصیر احمد ناصر

تو کیا جانے تیرے سر پر

 ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے


تُو کیا جانے تیرے سر پر

وقت کا چرخا گھوں گھوں کرتا

کات رہا ہے بال سفید


مخمور جالندھری

گور بخش سنگھ

برف گرتی ہے جب چٹانوں پر

 ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے


برف گرتی ہے جب چٹانوں پر 

اور وادی میں رات ہوتی ہے

ایک کٹیا میں دیپ جلتا ہے 


بشیر سیفی 

یاد رکھو گے کہ شاعر سے محبت کی تھی

 ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/٭تروینی/ترائلے


دو ہی لوگوں کی جگہ نظم میں ہے آ جاؤ

آؤ لے چلتے ہیں افلاک گھما لائیں تمہیں

یاد رکھو گے کہ شاعر سے محبت کی تھی


گلزار

دردوں کے ساون کا

ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے


دردوں کے ساون کا

سر کاٹ دے کوئی تو

اِس ہجر کے راون کا


شوزب حکیم

شرات سے بھری آنکھیں ستاروں کی طرح سے جگمگاتی ہیں

 بوجھیں تو جانوں


شرات سے بھری آنکھیں

ستاروں کی طرح سے جگمگاتی ہیں

شرارت سے بھری آنکھیں

مِرے گھر میں اُجالا بھر گیا

تیری ہنسی کا

یہ ننھے ہاتھ جو گھر کی کوئی شے

کچھ قوس قزح سے رنگت لی کچھ نور چرایا تاروں سے

 شاعر


کچھ قوسِ قزح سے رنگت لی کچھ نور چرایا تاروں سے

بجلی سے تڑپ کو مانگ لیا کچھ کیف اُڑایا بہاروں سے

پھولوں سے مہک شاخوں سے لچک اور منڈووں سے ٹھنڈا سایہ

جنگل کی کنواری کلیوں نے دے ڈالا اپنا سرمایہ

بد مست جوانی سے چھینی کچھ بے فکری کچھ الہڑ پن

پھر حسن جنوں پرور نے دی آشفتہ سری دل کی دھڑکن

تمام شب مرے کمرے کی زرد کھڑکی پر

 قرب


تمام شب مرے کمرے کی زرد کھڑکی پر

کبھی ہواؤں کے جھونکوں نے آ کے دستک دی

کبھی دھڑکتی ہوئی تیرگی نے سر پٹخا

کبھی سمٹتی بکھرتی سی سرد بوندوں نے

خموش شیشے کہ دیوار سے گلے مل کر

وہ ایک بات بہ انداز محرمانہ کہی

راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے

 راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے

یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے

وہ بھی کیا دور تھے ساقی! تِرے مستانوں کے

راستے راہ تکا کرتے تھے مے خانوں کے

بادلوں پر یہ اشارے تِرے دیوانوں کے

ٹکڑے پہنچے ہیں کہاں اُڑ کے گریبانوں کے

معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

 معصوم نظر کا بھولا پن، للچا کے لُبھانا کیا جانے

دل آپ نشانہ بنتا ہے،۔ وہ تیر چلانا کیا جانے

کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں

کچھ سیکھا ہُوا تو کام نہیں،۔ دل ناز اٹھانا کیا جانے

چٹکی جو کلی کوئل کُوکی، اُلفت کی کہانی ختم ہوئی

کیا کس نے کہی کیا کس نے سُنی یہ بات زمانہ کیا جانے

Friday 29 September 2023

اے شاہ زمن محبوب خدا صلی علیٰ صلی علیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے شاہِ زمن، محبوبِ خدا

صلی علیٰ،۔ صلی علیٰ

جب سرد ہوئی فارس کی ہوا

اور آگ بُجھی ایوانوں میں

قیصر پہ بھی لرزہ طاری تھا

بھونچال تھا اک مے خانوں میں

ہے روشن جہاں از جمال محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جہاں روشن است از جمالِ محمدﷺ

دلم تازہ گشت از وصالِ محمدﷺ

ہے روشن جہاں از جمالِ محمدﷺ

یہ دل جی اُٹھا ہے کمالِ محمدﷺ

خوشا مجلس و مسجد و خانقاہے

کہ در وے بود قیل و قالِ محمدﷺ

جلوۂ روئے نبی مطلع انوار حیات

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جلوۂ رُوئے نبیؐ مطلعِ انوارِ حیات

جُنبشِ غنچۂ لب، خُطبۂ کردارِ حیات

تِریﷺ تخلیق کو مانا گیا شہکارِ حیات

نُور تیراﷺ ہی رہا طُرّۂ دستارِ حیات

یہ شرف کم ہے کہ شامل ہیں تِری اُمت میں

ورنہ ہم جیسے سِیہ کار، سزا وارِ حیات

پر نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


پُر نور ہے زمانہ صبحِ شبِ وِلادت

پردہ اُٹھا ہے کس کا صبحِ شبِ وِلادت

دل جگمگا رہے ہیں قسمت چمک اُٹھی ہے

پھیلا نیا اُجالا صبحِ شبِ وِلادت

آئی نئی حکومت سِکہ نیا چلے گا

عالم نے رنگ بدلا صبحِ شبِ وِلادت

مبارک اہل ایماں کو کہ ختم المرسلیں آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مبارک اہل ایماں کو کہ ختم المرسلیں آئے 

مبارک، صد‌ مبارک بانیٔ دِین‌ مبیں آئے 

مبارک ہو کہ دنیا میں شہؐ دنیا و دِیں آئے 

چراغ طُور آئے زینتِ عرشِ بریں آئے 

کہ حسن ذات دینے کے لیے ذوق یقیں آئے 

مبارک ہو جہاں کو رحمۃ اللعالمیں آئے 


ہاتھ آتی نہیں بے کراں زندگی

 ہاتھ آتی نہیں بے کراں زندگی

رابطوں کا عجب امتحاں زندگی

سانس کی ڈور سے ہے جُڑی زندگی

روکتے روکتے بھی رواں زندگی

آبلے پاؤں میں پُر خطر زندگی

موت کی دُھوپ میں سائباں زندگی

خود اپنے جذب محبت کی انتہا ہوں میں

 خود اپنے جذبِ محبت کی انتہا ہوں میں

تِرے جمال کی تصویر بن گیا ہوں میں

حدیثِ عشق ہوں، افسانۂ وفا ہوں میں

بُھلا سکے نہ جسے تم وہ ماجرا ہوں میں

مِری سرشت ہے ہنس ہنس کے زخم غم کھانا

کہ حادثات میں پَل کر جواں ہوا ہوں میں

ارادوں کی شکستوں پر ثنا خوانی سے پہچانا

 ارادوں کی شکستوں پر ثنا خوانی سے پہچانا

خُدایا میں نے تُجھ کو کتنی آسانی سے پہچانا

کئی لوگوں نے پھلتے پُھولتے پیڑوں سے جانا ہے

مگر میں نے تُجھے سبزے کی عُریانی سے پہچانا

مِرے سجدے اسی دنیا میں میرے کام آئے ہیں

مِرے قاتل نے مجھ کو میری پیشانی سے پہچانا

بڑھے گا نفع ہمارا خسارے جائیں گے

 بڑھے گا نفع ہمارا، خسارے جائیں گے

پڑے ہوئے ہیں کبھی تو پکارے جائیں گے

یہ آدھی رات میں دیوار پھاندنے والے

تمہاری دید کے چکر میں مارے جائیں گے

 سڑک پہ بھاگتی گاڑی سے بغض کیا شے ہے

پتہ چلے گا تمہیں جب تمہارے جائیں گے

کہیں مٹی کہیں تصویر پڑی ہے میری

کہیں مٹی، کہیں تصویر پڑی ہے میری

خواب کے طشت میں تعبیر پڑی ہے میری

ہانپتا کانپتا آتا ہوں جو میں اپنی طرف

پسِ عجلت، کوئی تاخیر پڑی ہے میری

روشنی بن کے میں روزن سے نکل بھی آیا

قید میں آج بھی زنجیر پڑی ہے میری

Thursday 28 September 2023

ساتھ میرا تمہارا کب تک ہے

 تم سے پوچھوں اگر بتاؤ گے

ایک الجھن مری مٹاؤ گے

چاند شب بھر ہے

سنگ تاروں کے یہ کرن

شام تک ہے سورج کی

پھول کھلتے ہیں

ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

 ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

نہ پوچھو کیا قیامت ہو گئی تھی

ہمیں جب عشق نے قیدی رکھا تھا

تو جاں دے کر ضمانت ہو گئی تھی

نبھا کا وعدہ کہتے بھول جائیں

جوانی میں حماقت ہو گئی تھی

اپنے کام سے کام رکھا فیضِ محبت عام رکھا

 اپنے کام سے کام رکھا

فیضِ محبت عام رکھا

اہلِ جہاں کی خاطر بس

ارزاں اپنا دام رکھا

رزق کا پتھرعمر تمام

صبح اٹھایا، شام رکھا

کسی کو دل کسی کو گھر میں رکھا

 کسی کو دل کسی کو گھر میں رکھا

ہمیں تو عشق نے چکر میں رکھا

تجھے پوری محبت مل گئی ہے

میں آدھا رہ گیا، اس ڈر میں رکھا

یقیناً ہم تو اس قابل نہیں تھے

ہمیں تو تم نے خود بہتر میں رکھا

میں تو سنتا رہوں گا اسے دیر تک

 میں تو سُنتا رہوں گا اسے دیر تک 

گر تِرا ذکر کوئی کرے دیر تک 

میں نے اک بار دعویٰ محبت کا کِیا 

بعد میں مجھ پہ پتھر پڑے دیر تک 

ہجر کے بعد تُو نے جو نغمے لِکھے 

ہم نے وہ سارے نغمے سُنے دیر تک 

تنہائی راتوں کو رونے والی کتیا ہے

 تنہائی کا پورٹریٹ


تنہائی راتوں کو رونے والی کتیا ہے

جس کے بَین

لمبی تنہا سڑکوں سے ٹکرا کر

لوٹ آتے ہیں


صنوبر الطاف

میرے لہجے میں اسے محشر ملا

 میرے لہجے میں اسے محشر ملا

کیا کروں جو دل مجھے پتھر ملا

جو کتابوں میں نہیں تھا وہ جواب

مجھ کو میری ذات کے اندر ملا

کتنے قابل بچے ہیں دیکھو زرا

جو ملا وہ اپنے سے بہتر ملا

ہر بات جس کی تھی کبھی للکار کی طرح

 ہر بات جس کی تھی کبھی للکار کی طرح

خاموش آج ہے وہی دیوار کی طرح

مشاطۂ سیاستِ حاضر بھی دنگ ہے

اُلجھی ہے بات گیسُوئے خمدار کی طرح

اس کو سفارشوں سے ملی ہے یہ برتری

وہ آدمی کھڑا ہے جو مینار کی طرح

اک نظر دیکھ تو لیتے ہمیں جاتے جاتے

 اِک نظر دیکھ تو لیتے ہمیں جاتے جاتے

نفرتوں کی کوئی دیوار گِراتے جاتے

اِتنا تو کرتے کہ کچھ ہم میں تعلق رہتا

دیتے تہمت، کوئی الزام لگاتے جاتے

تم نے دن رات سُلگنے کی سزا دی تھی مجھے

اُنگلیاں راکھ میں اپنی بھی جلاتے جاتے

صورت بنائیے کوئی تازہ وصال کی

 صورت بنائیے کوئی تازہ وصال کی

حاجت ہے زخم ہجر کو اب اندمال کی

اک زخم ہوں جو زخم ہے تازہ شکست کا

خنکی سے پھٹ رہا ہے جو باد شمال کی

خواہش خرد کے پاؤں پکڑتی ہے بار بار

ہے ملتمس کہ لائیے صورت وصال کی

Wednesday 27 September 2023

کتنے خواب پڑے ہوتے ہیں آنکھوں کی الماری میں

 کتنے خواب پڑے ہوتے ہیں آنکھوں کی الماری میں

سارے اک دن کھو جاتے ہیں عورت سے گھر داری میں

اماں بابا کے سائے میں جو گھر کی شہزادی تھی

سپنے بیچنے آئی ہے وہ مجبوری ناداری میں

سچ کہتے ہیں خوابوں کی تعبیریں اُلٹی ہوتی ہیں

مجھ کو خواب میں ملنے والے چھوڑ گئے بیداری میں

ہوئی دستک کوئی آیا نہیں کوئی نہیں ہے

 ہوئی دستک کوئی آیا نہیں کوئی نہیں ہے

ہمیں اب پوچھنے والا کہیں کوئی نہیں ہے

بہت آباد ہیں یہ بے در و دیوار سے گھر

محل ایسے بھی ہیں جن میں کمیں کوئی نہیں ہے

جھجکتے ہیں اشاروں سے بھی دل کی بات کرتے

کہ شیشہ گھر میں رازوں کا امیں کوئی نہیں ہے

احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے گا

 احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے گا 

ہر زخم کو اب پھول بنانا تو پڑے گا 

ممکن ہے مِرے شعر میں ہر راز ہو لیکن 

اک راز پسِ شعر چھپانا تو پڑے گا 

آنکھوں کے جزیروں پہ ہیں نیلم کی قطاریں 

خوابوں کا جنازہ ہے اٹھانا تو پڑے گا 

مجھے اے ہم نفس اندیشۂ برق و خزاں کیوں ہو

 مجھے اے ہم نفس اندیشۂ برق و خزاں کیوں ہو

مِری پرواز محدودِ فضائے گلستاں کیوں ہو

جنوں کی وُسعتوں پر تنگ ہے عرصہ دو عالم کا

جو سجدہ ہو تو پھر سجدہ بقیدِ آستاں کیوں ہو

مِرے کام آ گئی آخر مِری کاشانہ بر دوشی

شرار و برق کی زد پر بھی میرا آشیاں کیوں ہو

ناصح نہ بک زیادہ مرا مان یہ سخن

 ناصح نہ بک زیادہ مِرا مان یہ سخن 

مجھ سیتی چھوٹے عشق ہے امکان یہ سخن 

تسبیح، نماز، روزہ سے مجھ کو نہیں ہے کام 

میں بت پرست ہوں،۔ مِرا پہچان یہ سخن 

ہر روز مجھ کو عشق سے کیوں روکتا ہے تُو 

آخر کو کھو رہا ہے تِری جان یہ سخن 

Tuesday 26 September 2023

دیکھو کل تک کون جیا ہے گر جینا ہے آج جیو ناں

 گر جینا ہے آج جیو ناں

یادوں کے رخسار پہ جگتے لمس کی سوگند

سبز رُتوں کی آس میں بیٹھی آنکھ سے پوچھو

ہر اک سانس پہ بھاری شرطیں

دھیر ے دھیرے خواب ہمارے چاٹ گئی ہیں

سانس میں گُھلتے کانچ کے ریزے کس نے دیکھے 

تنہائیوں کے دشت میں بھاگـے جو رات بھر

تنہائیوں کے دشت میں بھاگـے جو رات بھر

وہ دن کو خاک جاگے گا، جاگے جو رات بھر

فکرِ معاش نے انہیں قصہ بنـا دیا

سجتی تھیں اپنی محفلیں آگے جو رات بھر

وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا

سُلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر

احتیاط اے دل ناداں وہ زمانے نہ رہے

 احتیاط اے دلِ ناداں! وہ زمانے نہ رہے

تیرے عشاق، تِرے چاہنے والے نہ رہے

جن سے قائم تھی تِری شوخ نگاہی کی ادا

رنگِ محفل وہ جنوں خیز اشارے نہ رہے

اے گلِ شوخ ادا! تجھ کو خبر ہے کہ نہیں

جو محافظ تھے تِرے اب وہی کانٹے نہ رہے

عاقل ہے باشعور ہے کافی ذہین بھی

 عاقل ہے، باشعور ہے، کافی ذہین بھی

اس پر ہے مستزاد وہ از حد حسین بھی

بوسہ کسی بھی پھول کا ہم نے نہیں لیا

رخسار منتظر رہے، لب بھی، جبین بھی

گھر لے لیا ہے عین تِرے گھر کے سامنے

اور اک خرید لایا ہوں میں دوربین بھی

محبت کر کے آگ اور پانی کو باہم نکلی

 محبت کر کے آگ اور پانی کو باہم نکلی

دل جلتا ہوا نکلا، تو آنکھ نم نکلی

آج گیا تھا بازار عشق اچھا وقت خریدنے

میری قیمت برے وقت سے بھی کم نکلی

اس لیے چھوڑ دی ہے محبت کی تجارت

ہر خواہش کر کے دل میں اک زخم نکلی

Monday 25 September 2023

بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس

 بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا، اور بس

جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس

آیا ہی تھا خیال کہ پھر دُھوپ ڈھل گئی

بادل تمہاری یاد کا برسا تھا، اور بس

ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے

ہاں اک دِیا دریچے میں رکھا تھا اور بس

یہ حبس مستقل ٹوٹے کسی صورت ہوا آئے

 یہ حبسِ مستقل ٹُوٹے، کسی صُورت ہوا آئے

کہیں سے گُنگ بستی میں کوئی سنگِ ندا آئے

چاہت میں گُم آنکھوں میں خواہش رُوٹھ جانے کی

کہیں بے مُدعا ہونٹوں پہ حرفِ مُدعا آئے

غُبارِ ابتلاء اس شہر کے چہرے پہ چھایا ہے

کوئی دستِ دُعا اٹھے، کسی جانب گھٹا آئے

درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں

 درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں

دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں

ہم کو بس تیری ہی چوکھٹ پہ پڑے رہنا ہے

تجھ سے بچھڑیں نہ کسی اور ٹھکانے جائیں

اپنی دیوار انا آپ ہی کر کے مسمار

اپنے رُوٹھوں کو چلو آج منانے جائیں

سرمایۂ افکار تھا رحمٰن کیانی

 ہدیۂ عقیدت (رحمٰن کیانی/عبدالرحمٰن کیانی)


سرمایۂ افکار تھا رحمٰن کیانی

شمشیر ضیا بار‘ تھا رحمٰن کیانی’

اس عہد میں بھی ’سیف و قلم‘ کا تھا وہ مالک

سچائی کا اظہار تھا رحمٰن کیانی

اقبال نے جس فکر کی رکھی تھی بنیاد

اس فکر سے سرشار تھا رحمٰن کیانی

شجر زمیں گھٹا آسمان بولتا ہے

 شجر، زمیں، گھٹا آسمان بولتا ہے

وہ ہونٹ کھولے تو سارا جہان بولتا ہے

سنے گا کون صدائیں دلِ شکستہ کی

تمام شہر تمہاری زبان بولتا ہے

ہمارے بیچ محبت مہک رہی ہے اگر

تو پھر یہ کون ہے جو درمیان بولتا ہے

امید کہاں ہو تم امید سن رہی ہو

 اپنے کمرے میں پِچھلے 

چار گھنٹے سیدھے لیٹے

پنکھے کو تکتے گزر چکے ہیں

دماغ الٹے سیدھے خیالوں کی

جنگ سے لڑ رہا ہے 

پنکھا مئی میں بھی 

مرتا ہے تو جینے کی دوا کیوں نہیں دیتے

 مرتا ہے تو جینے کی دوا کیوں نہیں دیتے

بیمار کو دامن کی ہوا کیوں نہیں دیتے

وہ دور کہ انسان کو تھا انساں پہ بھروسہ

اس گزرے زمانے کو صدا کیوں نہیں دیتے

اک بوجھ ہے دل پر تو بھلا کیوں نہیں روتے

آئینے کو شبنم سے جِلا کیوں نہیں دیتے

تذکرہ اب نا کہیں میرا گاہ گاہ چلے

 تذکرہ اب نا کہیں میرا گاہ گاہ چلے

وہ اتفاقاً ہی مِرے ساتھ سر راه چلے

قرب قسمت ہی نا تها ورنہ تمہاری جانب

ہم بے ارادہ چلے، اور بے پناہ چلے

سُوئے دامن یوں چلے آج ہمارے آنسو

جیسے میدان سے ہاری ہوئی سپاہ چلے

ہمراہ مرے کوئی مددگار کرے گی

 ہمراہ مِرے کوئی  مددگار کرے گی 

احسان کہاں زیست یہ ہر بار کرے گی

ہے میرا ہنر آپ کی تائید سے زندہ 

دنیا تو میری ذات کا انکار کرے گی 

اک دن مِرے کاندھے سے تو سر ٹیک کے سو جا 

یہ نیند تجھے خواب سے بیدار کرے گی 

کیا خبر تجھ کو او دامن کو چھڑانے والے

 کیا خبر تجھ کو او دامن کو چھڑانے والے

اور بھی ہیں مجھے سینے سے لگانے والے

ناپتے کیسے مِرے ظرف کی گہرائی کو

ڈُبکیاں خطۂ ساحل میں لگانے والے

اے ہواؤ! نہ کہیں ہاتھ جلا لو تم بھی

بُجھ گئے میرے چراغوں کو بُجھانے والے

Sunday 24 September 2023

اک مکاں شہر تمنا میں ہوا کرتا تھا

 اک مکاں شہرِ تمنا میں ہوا کرتا تھا

دل کا دروازہ اسی سمت کھلا کرتا تھا

میں بھی رہتی تھی کسی حُسنِ نظر میں آباد

ایک شہزادہ مِرے دل میں رہا کرتا تھا

میرے آنگن میں بہت پُھول کھلا کرتے تھے

زندگی کا بھی عجب رنگ ہوا کرتا تھا

نظم لکھنے کے لیے محبت چاہیے

نظم لکھنے کے لیے محبت چاہیے  


میں آج نظم نہیں لکھوں گا 

نظم لکھنے کے لیے 

محبت چاہیے 

اور محبت لکھنے کے لیے 

تم 

میرے پاس آج 

وہ کتنے حسین بسیرے تھے

 وہ کتنے حسین بسیرے تھے

جب دور غموں سے ڈیرے تھے

جو کھیل میں حائل ہوتا تھا

نفرین کے قابل ہوتا تھا

ہر اک سے اُلجھ کر رہ جانا

رُک رُک کے بہت کچھ کہ جانا

جو قصہ تھا خود سے چھپایا ہوا

 جو قصہ تھا خود سے چھپایا ہوا

وہ تھا شہر بھر کو سنایا ہوا

مخالف سے صلح و صفائی جو کی

کئی دوستوں کا صفایا ہوا

جو محفل میں پہچانتا تک نہ تھا

تصور میں بیٹھا ہے آیا ہوا

اس طرح یاد آنے سے کیا فائدہ

 اس طرح یاد آنے سے کیا فائدہ

مفت احساں جتانے سے کیا فائدہ

جس جگہ دل ہی جھکتا نہیں آپ کا

اس جگہ سر جھکانے سے کیا فائدہ

ختم کچھ دم میں ہو جائے گی روشنی

شمع کی لو بڑھانے سے کیا فائدہ

Saturday 23 September 2023

بنا جرم کے دیکھو پکڑی ہوئی

 بِنا جرم کے دیکھو پکڑی ہوئی

میں رِیتوں رواجوں میں جکڑی ہوئی

میں مردہ ہوں اور لاش اکڑی ہوئی

کروں کیا میں مجبور ہاری ہوئی

لاچار غیرت پے واری ہوئی

عجب ان کی منطق پہ حیران ہوں

ترے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں

تِرے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں

سخن کے پاؤں مِرے لڑکھڑانے لگتے ہیں

جو ایک دست بُریدہ سوادِ شوق میں ہے

علم اُٹھائے ہوئے اس کے شانے لگتے ہیں

میں دشت ہُو کی طرف جب اُڑان بھرتا ہوں

تِری صدا کے شجر پھر بُلانے لگتے ہیں

ایسی دنیا ہے جہاں بیٹھے کھڑے پیار کریں

ایسی دنیا ہے جہاں بیٹھے کھڑے پیار کریں

میں وہاں ہوں کہ جہاں چھوٹے بڑے پیار کریں

یہ میرا حُسنِ عمل ہے میرے یوسف ثانی

تیرے ہوتے ہوئے بھی لوگ مجھے پیار کریں

تُو نعمت ہے جسے چُھو بھی نہیں سکتا کوئی

میں وہ لب ہوں جسے پانی کے گھڑے پیار کریں

درد پہلوئے شکستہ میں نمو ہوتا ہوا

 درد پہلوئے شکستہ میں نمو ہوتا ہوا

ایک لہجے کی مسافت کا لہو ہوتا ہوا

اک حقیقت مِرے آگے ہے نگوں ہوتی ہوئی

اک زمانہ میرے پیچھے ہے عدو ہوتا ہوا

ایک آنسو تھا ندامت کی فصیلوں میں گِھرا

وہ چھلک اٹھا ہے دامن میں سبُو ہوتا ہوا

جب دن نکل رہا ہے تو کیوں رات کا ہے خوف

 جب دن نکل رہا ہے تو کیوں رات کا ہے خوف

دن بھی نہ رات جیسا ہو اس بات کا ہے خوف

تاریکیوں میں چلتے رہے دیکھ بھال کر

جو دن میں رات گزری ہے اس رات کا ہے خوف

سب کو یہاں پہ خوف اندھیروں کا تھا، مگر

میں روشنی سے ہارا ہوں اس مات کا ہے خوف

ضروری تو نہیں ہر بات دل سے لگا لو

 ضروری تو نہیں ہر بات دل سے لگا لو

”ایک کان سے سنو، دوسرے سے نکالو“

تم ضروری ہو، مگر خود سے زیادہ؟

نہیں محترم! ایسے وہم مت پالو؟

میں ایسی کیاری جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکوں 

تم جس میں میرے لیے اجنبیت کے بیج ڈالو

کروں گا کیوں کوئی سمجھوتہ اب اصولوں سے

 کروں گا کیوں کوئی سمجھوتہ اب اصولوں سے

میں آشنا ہوں محبت کے جب اصولوں سے

انا کا دخل ہی ہوتا نہیں محبت میں

چمٹ کے بیٹھے ہو تم بے سبب اصولوں سے

کہیں پہ کوئی سمجھتا ہے سب اصول فضول

کہیں پہ لڑتا ہے اک جاں بلب اصولوں سے

ساری دنیا کو تماشا نہ بنا سامنے آ

 ساری دنیا کو تماشا نہ بنا، سامنے آ

میری وحشت کے پسندیدہ خدا، سامنے آ

میرے دشمن نے مجھے خط میں گزارش کی ہے

درگُزر چھوڑ کے شمشیر اٹھا، سامنے آ

ہم نے جوکر کو بھی سرکس میں پُکارا ایسے

روتی آنکھوں کو ہنسانے کی دعا، سامنے آ

اترا نہ اس قدر بھی تو جاہ و جلال پر

 اِترا نہ اس قدر بھی، تُو جاہ و جلال پر

رہتا نہیں سدا کوئی اوجِ کمال پر

دینا پڑے گا ظالمو، ہر ظلم کا حساب

تکیہ کرو نہ اتنا بھی تم اپنے مال پر

پوچھے گی ایک دن یہ رعایا، جواب دو

تب چونک چونک جاؤ گے اک اک سوال پر

پھول جو تیرے لیے ہم نے دھرے ہیں اب تک

 پھول جو تیرے لیے ہم نے دھرے ہیں اب تک

سوکھ جانے پہ بھی خوشبو سے بھرے ہیں اب تک

آتشیں آنکھوں سے حیرت کا دھواں اٹھتا ہے

جڑ توانا ہے، مِرے پات ہرے ہیں اب تک

جھیل سی آنکھوں میں کھل پایا نہیں کوئی کنول

رونقِ دید سے ہم لوگ پرے ہیں اب تک

Friday 22 September 2023

نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب

 نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب

رکھا چشم نظر شبنم میں اپنے یار سے مطلب

یہ دل دام نگہ میں ترک کے بس جا ہی اٹکا ہے

بر آوے کس طرح اللہ اب خونخوار سے مطلب

بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ

مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب

حواس شہر پہ جب رات چھانے لگتی ہے

 حواسِ شہر پہ جب رات چھانے لگتی ہے 

تِری جدائی مِری جاں کو آنے لگتی ہے 

کبھی کبھی میں بہت کِھلکھلا کے ہنستا ہوں 

کبھی کبھی مِری وحشت ٹھکانے لگتی ہے 

جو قہقہے نہ لگاؤں تو میرے سینے سے

کسی کے رونے کی آواز آنے لگتی ہے

اتنی مانوس کہ قدموں کی صدا جانتی ہے

 اتنی مانوس کہ قدموں کی صدا جانتی ہے

رہگزر تک مِرا نقشِ کفِ پا جانتی ہے

کون کُمہلا گئے اور کون سرِ شاخ کھِلے

کچھ کو میں جانتا ہوں کچھ کو صبا جانتی ہے

حیرت آمیز نہیں میرے لیے دامِ وجود

ریت پر جو بھی رقم ہے وہ فنا جانتی ہے

کیا خبر اس روشنی میں اور کیا روشن ہوا

 کیا خبر اس روشنی میں اور کیا روشن ہوا

جب وہ ان ہاتھوں سے پہلی مرتبہ روشن ہوا

وہ مِرے سینے سے لگ کر جس کو روئی کون تھا

کس کے بُجھنے پر میں آج اس کی جگہ روشن ہوا

ویسے میں ان راستوں اور طاقچوں کا تھا نہیں

پھر بھی تُو نے جس جگہ پر رکھ دیا روشن ہوا

مرحلہ دید کا تکرار تک آ پہنچا ہے

 مرحلہ دِید کا تکرار تک آ پہنچا ہے

طُور سے چل کے جنوں دار تک آ پہنچا ہے

بات آ پہنچی ہے اندیشۂ رُسوائی تک

جذبۂ دل، لبِ اظہار تک آ پہنچا ہے

نام کو بھی نہیں اب دل میں کدورت کا نشاں

آئینہ عکسِ رُخِ یار تک آ پہنچا ہے

Thursday 21 September 2023

یہ جو دامن عمر میں چند سانسیں بچی ہیں

 تمہارے لیے خط


یہ جو دامن عمر میں چند سانسیں بچی ہیں 

مجھے ٹوٹتی سی نظر آ رہی ہیں

تمہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں

پھر بھی اس خط میں 

اپنے سبھی پاس ورڈ اور گھر کا پتہ لکھ رہی ہوں

وحشت صدائے دشت ہے وحشت قبائے دشت

 وحشت صدائے دشت ہے، وحشت قبائے دشت 

مجھ پر کسی کی یاد نے کیا کیا بنائے دشت 

مجھ پر کسی کا ہجر مسلسل نہ کیجیو 

یا ربِ ذوالجلال! مِرے، اے خدائے دشت 

مجنوں کو دیکھ میرے دوارے پہ آ گیا 

کاسہ اٹھا کے کہتا ہے وحشت برائے دشت 

لفظ جمال پر سیاہی پھیل رہی ہے

 انا حب الجمال 

دیواروں پر 

خون سے نام لکھنے

اور دل بنانے کی روایت 

ان دنوں کی بات ہے 

جب دو مختلف زبانوں کے انسانوں نے

آپس میں محبت کی تھی 

ہم دونوں کی اتنی پکی یاری تھی

 ہم دونوں


ہم دونوں کی اتنی پکی یاری تھی

ہم دونوں کو دیکھ کے دنیا جلتی تھی

ہم دونوں اک باغ میں کھلنے والے پھول

ہم دونوں کی جوڑی اچھی لگتی تھی

ہم دونوں تو فیض کی نظموں جیسے تھے

ہم دونوں اک اچھے شعر کے مصرعے تھے

اہل محبت تیرے در سے مات کھا گئے

 اہلِ محبت تیرے در سے مات کھا گئے

غریب آدمی تھے زر سے مات کھا گئے

جو سمجھتے تھے خود کو ناقابلِ تسخیر

تجھے دیکھا تیری نظر سے مات کھا گئے

آدھے شہر کو لے ڈوبا تیری آنکھ کا تجربہ

دریا کے تیراک تھے سمندر سے مات کھا گئے

Wednesday 20 September 2023

میں کیسے بھول سکتی ہوں حسیں منظر کراچی کے

 میں کیسے بھول سکتی ہوں حسیں منظر کراچی کے

مِری یادوں میں بستے ہیں وہ بحر و بر کراچی کے

مِری ہر ایک مشکل میں دلاسہ مجھ کو دیتے تھے

مِرے ہمراز ہیں اب تک وہ چارہ گر کراچی کے

مِری ہر ایک الجھن کا وہ کوئی حل بتاتے تھے

میں کیسے بھول سکتی ہوں سبھی دفتر کراچی کے

شوق تھا شباب کا حسن پر نظر گئی

 شوق تھا شباب کا حسن پر نظر گئی

لٹ کے تب خبر ہوئی زندگی کدھر گئی

زندگی قریب ہے کس قدر جمال سے

جب کوئی سنور گیا زندگی سنور گئی

ہے چمن کی آبرو قافلہ بہار کا

بوئے گل کا ساتھ کیا بے وفا جدھر گئی

نالاں ہیں اک طرف تو مرے نام سے بھی وہ

 نالاں ہیں اک طرف تو مِرے نام سے بھی وہ

کرتے ہیں پھر بھی ذکر مِرا ہر کسی سے وہ

سب اپنے اپنے دل کے تقاضے کی بات ہے

دل کی لگی کو میں ملوں اور دل لگی سے وہ

اک طرفہ گفتگو بھی کہاں تک کوئی کرے

خاموش کر گئے ہیں مجھے خامشی سے وہ

دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی

 دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی

مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی

مِرے محلے کا آسماں سُونا ہو گیا ہے

بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی

وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے

کہاں گئے بہتے پانیوں میں، بلائے کوئی

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی

 کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی 

کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی 

مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی 

وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی 

جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے 

کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی 

Tuesday 19 September 2023

رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا

 رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا

ایک چہرہ کہ آنکھوں میں ٹھہرا سا تھا

بے چراغی سے تیری مِرے شہر دل

وادیٔ شعر میں کچھ اجالا سا تھا

میرے چہرے کا سورج اسے یاد ہے

بھولتا ہے پلک پر ستارہ سا تھا

جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

 جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے

یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے

ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے

اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے

راہ کا خوف یہ کہتا ہے; کہ چلتے رہیے

اک عمر ہوئی جس کو دل و جان میں رکھے

 اک عمر ہوئی جس کو دل و جان میں رکھے

حسرت ہی رہی وہ بھی مجھے دھیان میں رکھے

چھوڑ آئے تِری دید کی خاطر جو چمن کو

وہ پھول بھی مُرجھا گئے گُلدان میں رکھے

آیا نہ کوئی دیکھنے والا سرِ بازار

کیا کیا نا گُہر رہ گئے دوکان میں رکھے

دل مانتا نہیں کہ حقیقت نہیں تھی وہ

 دل مانتا نہیں کہ حقیقت نہیں تھی وہ

کچھ اور سلسلہ تھا محبت نہیں تھی وہ

کچھ دیر کا الاؤ تھا سینوں کے درمیاں

کچھ دیر کا پڑاؤ تھا صحبت نہیں تھی وہ

ایک طے شدہ سفر تھا محبت کے نام پر

کچھ وقت کاٹنا تھا، رفاقت نہیں تھی وہ

تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی

 تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی

تو یاد رہے ہم سے بھی ویسی ہی سنو گی

یہ ہمسفری مصلحتِ وقت تھی، ورنہ

یہ تو ہمیں معلوم تھا تم ساتھ نہ دوگی

یہ تازہ ستم ہم کو گوارہ تو نہیں ہے

ہم یہ بھی سہہ لیتے ہیں کیا یاد کرو گی

Sunday 17 September 2023

تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو ٹھیک ہی کہتے ہو

 تم مجھ کو گُڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو

کھیلنے والے سب ہاتھوں کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں

جو پہنا دو، مجھ پہ سجے گا

میرا کوئی رنگ نہیں

جس بچے کے ہاتھ تھما دو

نقشِ پا محو ہو جائیں گے ‎تم سنو گے نہیں

 نقشِ پا محو ہو جائیں گے

‎تم سنو گے نہیں

‎کوئی آواز دیتا رہے گا، بہت دیر تم کو پکارا کرے گا

‎بالآخر صدا اس کے سینے میں جم جائے گی

‎اس کی آنکھوں کی بارش بھی اِک روز تھم جائے گی

‎تم سنو گے نہیں

یہ سوچ کر بھی سمندر اداس رہتا ہے

 یہ سوچ کر بھی سمندر اداس رہتا ہے

وہ خوش بدن کسی دریا کے پاس رہتا ہے

یوں خاک ہوتے ہیں اک دن یہ خاک کے پتلے

نہ حسن باقی، نہ چہرے  پہ ماس رہتا ہے

اس آئینے کو بھی دو داد، ٹوٹتا ہی نہیں

تمہارے حسن سے بھی روشناس رہتا ہے

مت ڈالے اس سمندر میں کوئی جال محبت کا

 مت ڈالے اس سمندر میں کوئی جال محبت کا

میرے شہر میں پڑا ہے ابھی کال محبت کا

دل نے توڑی ہے جو سینے کی دیواردو وجہ ہوں گی

وہ ہو گا سامنے یا اٹھا ہے بھونچال محبت کا

پہلے میں بھی دنیا کو تجارت کی جگہ سمجھتا تھا

شاعری پڑھی تب آیا ہے خیال محبت کا

آبرو آدمیت کی سستی ہے کیا

آبرو آدمیت کی سستی ہے کیا

کس طرح مان لوں زبردستی ہے کیا

آدمی پر کرے جب ستم آدمی

ایسے لمحوں میں رحمت برستی ہے کیا

تیرے بندوں کے ہاتھوں سے برباد ہے

یا الٰہی وہی تیری بستی ہے کیا

Friday 15 September 2023

دل میرا مدتوں سے تھا پیاسا

 خلاصہ


دل میرا مدتوں سے تھا پیاسا

اک صحرا کے جیسی حالت تھی

تیری ماں بِن تیرے بھی زندہ تھی

ہاں، مگر زندگی دُھواں سی تھی

میرے اپنے تھے میرے پاس، مگر

ذات میں اک عجب خلش سی تھی

کہ رہا ہوں میں تجھے شام و سحر باندھ کے رکھ

 کہ رہا ہوں میں تجھے شام و سحر باندھ کے رکھ

تو مسافر ہے یہاں رختِ سفر باندھ کے رکھ

کاٹھ سے تُو نے بنایا ہے اگر پانی پر

موج کا کوئی بھروسہ نہیں گھر باندھ کے رکھ

قابلِ دید ہو جو کچھ تو اسے دیکھ مگر

حدِ آداب میں تو اپنی نظر باندھ کے رکھ

جو سر بریدہ ہوئے ان پہ آشکار ہوں میں

 جو سر بریدہ ہوئے ان پہ آشکار ہوں میں

وگرنہ کس کو خبر تھی کہ تیز دھار ہوں میں

گزر چکا ہے کہ گزرے گا کچھ نہیں معلوم

وہ اک لمحہ کہ اب جس کا انتظار ہوں میں

بڑا عجیب ہے جیسا بھی ہے طلسمِ وجود

کبھی کبھار نہیں ہوں کبھی کبھار ہوں میں

مری وفا تو سراہے مجھے ملے نہ ملے

 مری وفا تو سراہے، مجھے ملے نہ ملے

وہ شخص گاہے بگاہے مجھے ملے نہ ملے

میں اس کو ٹوٹ کے چاہوں، اسے ملوں نہ ملوں

وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے، مجھے ملے نہ ملے

کہا گیا ہے کہ; خود کردہ را علاجِ نیست

مرے لیے نہ کراہے، مجھے ملے نہ ملے

Thursday 14 September 2023

چھیڑا جو عرض حال تو سارے نکل گئے

 چھیڑا جو عرضِ حال تو سارے نکل گئے

اک ایک کر کے چرخ سے تارے نکل گئے

لوگوں کے دل کو جیتنے آئے تھے جیت کر

نقشہ زمیں کا جنگ میں ہارے، نکل گئے

مومی مجسمے تھے تپش سے پگھل گئے

دیپک چھڑا تو درد کے مارے نکل گئے

عشق حائل ہو گا یہ وجدان کب تھا

 عشق حائل ہو گا یہ وجدان کب تھا

ہار جانے میں کوئی نقصان کب تھا

دل مِرا یعنی کہ اُس کا گھر لُٹا ہے

گھر کے اندر اب مِرا سامان کب تھا

تُجھ سے تو صدیوں کی ہو پہچان جیسے

سوچتا ہوں دل کو تیرا دھیان کب تھا

لباس جسم کے اندر شرار ہوتے ہوئے

 لباس جسم کے اندر شرار ہوتے ہوئے

عجیب نقش تھے آنکھوں کے پار ہوتے ہوئے

میں اپنی سوچ میں گم تھا کہ دور جھیلوں پر

اُتر گئے تھے پرندے قطار ہوتے ہوئے

پلٹ گئے تھے مِری آنکھ میں پڑے منظر

مِرے خیال کی سکریں پہ بار ہوتے ہوئے

ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

 ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں

دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو

کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں

چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج

ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں

ماند پڑ جائیں گے اک دن آئینہ تمثال بھی

 ماند پڑ جائیں گے اک دن آئینہ تمثال بھی 

ہجر جب کھا جائے گا چہرے کے خد و خال بھی 

غمزدہ تھا میں بہت یہ ان دنوں کی بات ہے

جن دنوں میں اجنبی تھے واقفان حال بھی

ساتھ تیرے روشنی سے تیز چلتے ہیں قدم 

اور لمحوں میں سمٹ آتے ہیں ماہ و سال بھی 

دوستوں کی بات چھوڑو دشمنوں سے مل لیے 

کیا بُرا تھا پوچھ لیتے گر ہمارا حال بھی 

تُو نے بھی تنگ آ کے آخر دنیا داری چھوڑ دی 

گھر سے کم کم ہی نکلتے تھے ترے پامال بھی


مزمل بانڈے

Wednesday 13 September 2023

پرو دیے مرے آنسو ہوا نے شاخوں میں

 پرو دئیے مِرے آنسو ہوا نے شاخوں میں

بھرم بہار کا باقی رہے نگاہوں میں

صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی

کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں

کچھ اتنی تیز ہے سُرخی کہ دل دھڑکتا ہے

کچھ اور رنگ پسِ رنگ ہے گُلابوں میں

دل و جگر کو مرے داغدار رہنے دے

 دل و جگر کو مِرے داغدار رہنے دے

کسی کی سینے میں ہے یادگار رہنے دے

لبوں پہ موجِ تبسم ہو، آنکھ میں آنسو

خزاں میں پرتوِ رنگِ بہار رہنے دے

شکستِ لذتِ گریہ ہے کربِ روحانی

میں اشک بار بھلا اشکبار رہنے دے

خاموش کلی سارے گلستاں کی زباں ہے

 خاموش کلی سارے گلستاں کی زباں ہے

یہ طرز سخن آبروئے خوش سخناں ہے

جو بات کہ خود میرے تکلم پہ گراں ہے

وہ تیری سماعت کے تو قابل ہی کہاں ہے

ہر ذرہ پہ ہے منزل محبوب کا دھوکا

پہنچے کوئی اس بزم تک ان کا ہی کہاں ہے

نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

 نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

تِرے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں

پتہ تو ہے کہ اسے عمر بھر نہیں آنا

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی

جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

Tuesday 12 September 2023

ستارہ ساز آنکھوں میں ترا غم ہے

 ستارہ ساز آنکھوں میں تِرا غم ہے

فروزاں ہے، فراواں ہے، مجسم ہے

تمنا ہے سرِ خاکِ وفا ناچوں

کہ یہ مٹی ستاروں پر مقدم ہے

بہت خوش ہوں، ہوا جو راندۂ درگاہ

کہ یہ درماندگی زیبائے عالم ہے