Tuesday 30 November 2021

خلد کی راہ کے رہبر کو عمر کہتے ہیں

 منقبت در مدحِ سیدنا عمرؓ فاروق


خلد کی راہ کے رہبر کو عمرؓ کہتے ہیں

عدل و انصاف کے پیکر کو عمر کہتے ہیں

اپنے دلدار کو دلبر کو عمر کہتے ہیں

ہم چمکتے ہوئے اختر کو عمر کہتے ہیں

جس کی ہر موج سے انصاف کے موتی نکلے

اس گہر بار سمندر کو عمر کہتے ہیں

سلام اس پر نبوت نے جسے صدیق فرمایا

 عارفانہ کلام منقبت سلام بر رفیق نبی ابوبکر صدیقؓ


سلام اس پر نبوتؐ نے جسے صدیقؓ فرمایا​

شرف جس نے یہاں معراج کی تصدیق کا پایا​

سلام اس پر کہ جس نے سبقتِ ایماں بھی پائی ہے​

اس عزت کے لیے تقدیر جس کو چن کے لائی ہے​

سلام اس پر جو اک تاریخ ہے حسنِ عزیمت کی​

سلام اس پر جو اک تابندہ سیرت ہے حمیت کی

جو لوگ مصطفیٰ کی اجازت نہ پا سکے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


جو لوگ مصطفیٰؐ کی اجازت نہ پا سکے

ممکن نہیں ہے شہرِ مدینہ وہ جا سکے

تجھ پہ ہی ختم باب نبوت بھی کر دیا

تیری مثال کیا کوئی دنیا میں لا سکے

صدقے میں تیری رب نے بنائی ہے کائنات

ارض و سماں کہاں تِری وسعت کو پا سکے

برگ گل شاخ ہجر کا کر دے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


برگِ گل، شاخِ ہجر کا کر دے

اے خدا! اب مجھے ہرا کر دے

ہر پلک ہو نم آشنا مجھ سے

میرا لہجہ بہار سا کر دے

مجھ کو روشن مِرے بیان میں کر

خامشی کو بھی آئینہ کر دے

محبت میں خود کو فنا کر گئی ہوں

 محبت میں خود کو فنا کر گئی ہوں

وفا کرتے کرتے یہ کیا کر گئی ہوں

لگایا تھا دل جس سے پتھر وہ نکلا

کہ جذبات دل سے جدا کر گئی ہوں

منانا نہیں فیصلہ ہی تھا کرنا

میں روٹھی نہیں فاصلہ کر گئی ہوں

تیری آنکھیں تری صورت ترا چہرہ دیکھوں

 تیری آنکھیں تِری صورت تِرا چہرہ دیکھوں

دل بضد ہے کہ تِرے حسن کا جلوہ دیکھوں

تم جو اغیار سے بے پردہ مِلا کرتی ہو

چاند سے چہرے پہ دل کہتا ہے پردہ دیکھوں

مثلِ یوسف سرِ  بازار تو آؤں، لیکن

تیرے اندر بھی تو وہ کارِ زلیخا دیکھوں

سلسلے یہ کیسے ہیں ٹوٹ کر نہیں ملتے

 سلسلے یہ کیسے ہیں ٹوٹ کر نہیں ملتے

جو بچھڑ گئے لمحے عمر بھر نہیں ملتے

شور کرتے رہتے ہیں جسم و جاں کے سناٹے

جب طویل راہوں میں ہم سفر نہیں ملتے

دھوپ کی تمازت سے جو بچاؤ کر پاتے

سورجوں کے شہروں میں وہ شجر نہیں ملتے

وہ کون سی منزل تھی کل رات جہاں میں تھا

 وہ کون سی منزل تھی کل رات جہاں میں تھا

ہر چیز ہی بسمل تھی، کل رات جہاں میں تھا

کس شان کی محفل تھی، کل رات جہاں میں تھا

کونین کا حاصل تھی، کل رات جہاں میں تھا

ذروں کی جبینوں پر تاروں کا گماں گزرا

ہر شے مہِ کامل تھی، کل رات جہاں میں تھا

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہے بہت

 ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہے بہت

رات تاریک سہی ایک ستارا☆ ہے بہت

درد اٹھتا ہے جگر میں کسی طوفاں کی طرح

تب تِری یادوں کے دامن کا کنارا ہے بہت

ظلم جس نے کئے وہ شخص بنا ہے منصف

ظلم پر ظلم نے مظلوم کو مارا ہے بہت

فن قاتل ہے فنکار کی خانقاہ لنگر سے ماورا ہے

 فن قاتل ہے


فن کے بت کدے میں داخل ہو کر

اپنے رنگوں میں ہاتھ گھولنا

اپنی شاعری کی بنسی بجانا

اپنے افسانوں کے ہر ایک صنم سے مخاطب ہونا

اور سروں سے ہمکلام ہونا

کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا

 کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا

چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا

رکھتا جاتا ہوں میں خوابوں پر لگا کر اک نشان

کون سا باقی ہے اب بھی کون سا دیکھا گیا

🚶آدمی ہی آدمی کو ڈھونڈتا آیا نظر🚶

🚶آدمی ہی آدمی سے بھاگتا دیکھا گیا🚶

جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں

 جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں

یہ اور بات ہے جیتو کہ ہار جاؤں میں

کبھی میں خواب میں دیکھوں ہری بھری فصلیں

کبھی خیال کے دریا کے پار جاؤں میں

💢اک اور معرکۂ جبر و اختیار سہی💢

💢اک اور لمحۂ تازہ گزار جاؤں میں💢

موسم بھی یاد یار میں دلگیر ہو گیا

 موسم بھی یاد یار میں دلگیر ہو گیا

تنہائیوں سے میری بغل گیر ہو گیا

دامن پہ میرے داغ لگانے کی ضد میں وہ

کردار کی وہ اپنے ہی تشہیر ہو گیا

بچوں نے مجھ کو گھر سے نکلنے نہیں دیا

رشتہ یہ میرے پاؤں کی زنجیر ہو گیا

گلشن ہستی ہمارے دم سے جب آباد ہے

 گلشنِ ہستی ہمارے دم سے جب آباد ہے

پھر ہمارا ہر نفس کیوں مائلِ فریاد ہے

عندلیبِ باغ پر ہر روز اک افتاد ہے

وہ بھی دن آئے کہ دیکھوں قید میں صیاد ہے

ہے جہنم یہ جہاں حسساس انساں کے لیے

بے ضمیروں کو یہ دنیا جنتیں شداد ہے

ایک چہرے پہ لگے کتنے ہی چہرے دیکھے

 ایک چہرے پہ لگے کتنے ہی چہرے دیکھے

وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے رشتے دیکھے

لوگ گِرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں یہاں

آستینوں میں کئی سانپ بھی پلتے دیکھے

مجھ پہ الزام لگاتا ہے پسِ پشت جو شخص

کون ہوں کیسا ہوں میں، سامنے آ کے دیکھے

کچھ انتظار اور کرو صبر ناگوار اور کرو

 کار نو


کچھ انتظار اور کرو صبر ناگوار اور کرو

کچھ اپنے سروں کو قلم گریباں کو چاک اور کرو

اپنے اندر کی گرمئ خوں سنبھال کر رکھو

اندھیروں میں سخت پہروں میں ذرا یہ جور اور سہو

فضا پلٹنے میں جور تھمنے میں وقت ہے شاید

دیکھیں تو کس مقام پہ آنے لگے ہیں لوگ

 دیکھیں تو کس مقام پہ آنے لگے ہیں لوگ

اب تو مِری دعا بھی چرانے لگے ہیں لوگ

کوئی کسر رہی ہے مِرے التفات میں

تب ہی تو درمیان میں آنے لگے ہیں لوگ

گویا کسی مقام تلک آ گئی ہوں میں

تب ہی مِرا مقام گھٹانے لگے ہیں لوگ

محبت کا وظیفہ جانتا ہے

 محبت کا وظیفہ جانتا ہے 

یہ دل اِک اسم ایسا جانتا ہے 

مِرے بارے میں کوئی رائے مت دے 

مِرے بارے میں تُو کیا جانتا ہے؟

مِری آنکھوں کو لہریں پوجتی ہیں 

مِری کشتی کو دریا جانتا ہے

تعبیروں سے بند قبائے خواب کھلے

 تعبیروں سے بند قبائے خواب کُھلے

مجھ پر میرے مستقبل کے باب کھلے

جس کے ہاتھوں بادبان کا زور بندھا

اسی ہوا کے ناخن سے گرداب کھلے

اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا

مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے

مجھے صرف نفرت کی زبان آتی ہے

 زبان


مجھے

صرف نفرت کی زبان آتی ہے

نفرت کا لُغت نویس بن کر

میں اپنی زبان بُھول چُکا ہوں

محبت میری ماں بولی تھی

ایک وہ ہے کہاں سمجھتا ہے

 ایک وہ ہے، کہاں سمجھتا ہے

غم ہمارا جہاں سمجھتا ہے

ہر نصیحت گراں سمجھتا ہے

دل تو دل کی زباں سمجھتا ہے

ایک طبقہ چراغ سحری سا

بس وہ اردو زباں سمجھتا ہے

زمانہ سنگ ہے فریاد آئینہ میری

 زمانہ سنگ ہے، فریاد آئینہ میری

غلط کہوں تو زباں چھین لے خدا میری

تِرا قصور ہے اس میں نہ ہے خطا میری

تِری زمیں پہ جو برسی نہیں گھٹا میری

جہاں سے ترکِ تعلق کِیا تھا تُو نے کبھی

کھڑی ہوئی ہے اسی موڑ پر وفا میری

صرف یادوں کا ہے جہاں آباد

 صرف یادوں کا ہے جہاں آباد

کچھ نہیں دل میں اب یہاں آباد

روز ہوتی ہے دل پہ اک دستک

روز کرتا ہوں میں فغاں آباد

سوچتا ہوں میں بیٹھ کر تنہا

کس نے کیں غم کی بستیاں آباد

کوفیوں میں عشق کا چرچا کیا

 کُوفیوں میں عشق کا چرچا کِیا

اے خدا! تُو ہی بتا کیسا کِیا؟

جب محبت کی ضرورت تھی مجھے

"آپ نے غیروں کا دل ٹھنڈا کِیا"

زندگی ہم نے گزاری ہی کہاں

آپ کا کہنا کِیا، جتنا کِیا

بدن کی آنچ سے جب دل پگھلنے لگتا ہے

 بدن کی آنچ سے جب دل پگھلنے لگتا ہے

لہو میں شعلہ سا اک رقص کرنے لگتا ہے

بہار حسن پہ اترا، مگر خیال رہے

یہ رنگ چند دنوں میں اترنے لگتا ہے

یہی نہیں ہے کہ صحرا کو پیاس لگتی ہے

کبھی کبھی کوئی دریا ترسنے لگتا ہے

غم کا اظہار بھی کرنے نہیں دیتی دنیا

غم کا اظہار بھی کرنے نہیں دیتی دنیا

اور مرتا ہوں تو مرنے نہیں دیتی دنیا

سب ہی مے خانۂ ہستی سے پیا کرتے ہیں

مجھ کو اک جام بھی بھرنے نہیں دیتی دنیا

آستاں پر تِرے ہم سر کو جھکا تو لیتے

سر سے یہ بوجھ اترنے نہیں دیتی دنیا

ترے عشق کی جو ہوا لگے

تِرے عشق کی جو ہوا لگے

مِری زندگی کا دِیا جلے

یہ کمال ہے تِرے نُطق کا

مجھے گالیاں بھی دُعا لگے

کبھی فُرقتوں کا ہو اضطراب

کبھی قُربتوں کا مزہ لگے

خوشبو کی طرح ہم شب مہتاب میں آئے

 خوشبو کی طرح ہم شبِ مہتاب میں آئے

جب تیری تمنا میں تِرے خواب میں آئے

اے موجِ جنوں تُو کسی ساحل پہ اتر جا

گر عشق مِرا پھر کسی سیلاب میں آئے

کچھ نقش ابھر آئے تھے پانی کے بدن پر

ہم قوسِ قزح بن کے اسی آب میں آئے

عجب وہم و گماں ہے اور میں ہوں

 عجب وہم و گماں ہے اور میں ہوں

قیامت سا سماں ہے اور میں ہوں

جُھلستے خواب ہیں لاشیں جُھلستی

فقط اُٹھتا دھواں ہے اور میں ہوں

ندی بہتی چمن کے درمیاں ہے

کوئی خونِ رواں ہے اور میں ہوں

خام ہو سکتا ہے لاچار بھی ہو سکتا ہے

 خام ہو سکتا ہے لاچار بھی ہو سکتا ہے

یہ نکمّا تجھے درکار بھی ہو سکتا ہے

وقتِ وحشت ہے مجھے حسن کی خیرات نہ دے

ایسی بے زاری میں انکار بھی ہو سکتا ہے

نیتاً بھی نظر اٹھ سکتی ہے تیری جانب

اور یہ سلسلہ خودکار بھی ہو سکتا ہے

کم سے کم ملنے تو آ سکتے تھے تم

 کم سے کم ملنے تو آ سکتے تھے تم

سب گِلے شکوے مٹا سکتے تھے تم

دل میں ملنے کی تڑپ ہوتی اگر

کچھ بہانہ تو بنا سکتے تھے تم

جب خیالِ خام دل میں کچھ نہیں

بات مل کر بھی بتا سکتے تھے تم

بہری سماعتوں کا بیاں کس کے پاس ہے

 بہری سماعتوں کا بیاں کس کے پاس ہے

یہ کون بولتا ہے، بیاں کس کے پاس ہے

سب جانتے ہوئے بھی لگے تیر جب ہمیں

ہر اک سے پوچھتے ہیں کماں کس کے پاس ہے

کس نے محبتوں میں نبھائی ہے دیکھ لے

شعلے ہیں کس کے پاس، دھواں کس کے پاس ہے

بیاباں ہو کہ صحرا ہو مجھے تیرا سہارا ہو

 بیاباں ہو کہ صحرا ہو مجھے تیرا سہارا ہو 

تُو ہی خورشید ہو میرا تُو ہی میرا ستارا ہو 

بلندی ہو کہ پستی ہو کہیں بیٹھوں کہیں جاؤں 

وہیں پر میرا کعبہ ہو،۔ وہیں تیرا نظارا ہو 

نہ یہ دنیا نہ وہ عقبیٰ مِری تو اک تمنا ہے 

رہوں قدموں تلے تیرے تُو ہی میرا کنارہ ہو 

صبا خیال سے رکھنا قدم مدینے میں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


صبا خیال سے رکھنا قدم مدینے میں

ہے ذرّہ ذرّہ چراغِ حرم مدینے میں

ہوا میں آپؐ کی خوشبو، فضا میں آپؐ کا رنگ

جہانِ عشق کا بیت الحرم مدینے میں

ہے قُربِ ساقئ کوثرﷺ کی سلسبیل رواں

مہک رہی ہے فضائے ارم مدینے میں

میرے لیے بھی کوئی تحفۂ سفر لانا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


میرے لیے بھی کوئی تحفۂ سفر لانا

پلٹ کے آنا تو پھر ایک نئی سحر لانا

کسی کا غم ہو مگر اپنی آنکھ بھر لانا

کہ جیسے ہنستے ہوئے دشمنوں کو گھر لانا

خدا خدا ہے، خدا بھی مگر نہ چاہے گا

میرے رسولﷺ کے جیسا کوئی بشر لانا

ساکھ میخانۂ احمد کی ہے کتنی اچھی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


ساکھ مے خانۂ احمدﷺ کی ہے کتنی اچھی

جام اچھے ہیں خُم اچھے ہیں صراحی اچھی

نا خدا جس پہ فدا ہے وہ محمدﷺ کا ہے نام

جس پہ دیندار چڑھا ہے وہی کشتی اچھی

جام و مینا سے نہیں ہم کو سروکار مگر

آپﷺ کے نام پہ آ جائے تو مستی اچھی

Monday 29 November 2021

ہم فقیروں پہ اگر ان کی نظر ہو جائے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


ہم فقیروں پہ اگر انؐ کی نظر ہو جائے

عرش کو بھیجی دعاؤں میں اثر ہو جائے

یا الٰہی! میں تو جنت کا طلبگار نہیں

میری قسمت میں مدینے کا سفر ہو جائے

کاش اے کاش کہ پوری ہو تمنا دل کی

عمر یثرب کی فضاؤں میں بسر ہو جائے

قصیدے ان کے پڑھنا چاہتا ہوں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


قصیدے اُنؐ کے پڑھنا چاہتا ہوں

کہ اب میں بھی سنورنا چاہتا ہوں

بہت مُدت سے نہ روئی یہ آنکھیں

انہیں اشکوں سے بھرنا چاہتا ہوں

ہاں مل جائے جو خاکِ پائےِ احمدؐ

اُسے بوسہ میں کرنا چاہتا ہوں

آنکھ با فیض ہوئی جو تری رعنائی سے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


آنکھ با فیض ہوئی جو تِریؐ رعنائی سے

ہو نہیں سکتی ہے محروم وہ بینائی سے

زخمِ دل ہجر میں تیرے جو کبھی رستے ہیں

ان کو کرتا ہوں رفو مدح کی ترپائی سے

عشق سرکار دوعالمؐ ہے ہر اک غم کی دوا

کیا غرض مجھ کو زمانے کی مسیحائی سے

خالق ہے دو جہاں کا میرا تو آسرا ہے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


خالق ہے دو جہاں کا، میرا تُو آسرا ہے

تیری عطا سے مجھ کو، سارا جہاں ملا ہے

رنگین یہ نظارے،۔ یہ آبشار سارے

میدان اور جنگل،۔ یہ کوہسار سارے

رہتے ہیں بن کے میرے خدمت گزار سارے

کچھ بھی نہیں ہے بس میں، میری بساط کیا ہے

کیسے گزرے مرے حالات مجھے ہوش نہیں

 کیسے گزرے مِرے حالات مجھے ہوش نہیں

ہائے وہ ہجر کے دن رات مجھے ہوش نہیں

کس نے چھوڑا تھا مجھے تنہا تڑپنے کے لیے

درد میں کس نے دیا ساتھ، مجھے ہوش نہیں

کوئی نوکر، کوئی مالک، کوئی ہے پیر فقير

کتنے انسانوں کے طبقات مجھے ہوش نہیں

تیری اک اک یاد کو دل میں سمونے سے رہے

 تیری اک اک یاد کو دل میں سمونے سے رہے

خونِ دل میں انگلیاں اپنی ڈبونے سے رہے

چھیڑ دی جب شاعروں نے بات تیرے حسن کی

مدتوں کے جاگنے والے بھی سونے سے رہے

کیسے تجھ کو ہم دلائیں عشق کا اپنے یقیں

کیا ہوا جو اپنے دامن کو بھگونے سے رہے

نام رکھتا ہوں نہ میں مال نہ زر رکھتا ہوں

 نام رکھتا ہوں نہ میں مال نہ زر رکھتا ہوں

ہاں مگر ماں کی دعاؤں کا اثر رکھتا ہوں

آسمانوں سے بلندی پہ نظر رکھتا ہوں

جب بھی ماں آپ کی آغوش میں سر رکھتا ہوں

لاکھ طوفان ہوں ٹکرا کے گزرتا ہوں میں

ماں کی پلکوں کے ستاروں کی خبر رکھتا ہوں

کوئی شکوہ نہیں ہے ہم کو اپنی بے نوائی سے

 کوئی شکوہ نہیں ہے ہم کو اپنی بے نوائی سے

ملے ہیں حوصلے کیا کیا تمہاری بے وفائی سے

ہزاروں رہزنوں سے بچ کے جو پہنچے تھے منزل پر

انہیں یاروں نے لُوٹا ہے فریبِ پارسائی سے

عِوض پھولوں کے ہم نے تو ہمیشہ زخم کھائے ہیں

یہی شیوہ ہے اپنا تو بھلائی کر، برائی سے

تمہاری یاد کے جگنو سرابوں سے نہیں نکلے

 تمہاری یاد کے جگنو سرابوں سے نہیں نکلے

حقیقت میں ابھی تک ہم عتابوں سے نہیں نکلے

لبوں کو استعارہ پھول سے کرتے نہیں تھکتے

لب و رخسار کے شاعر گلابوں سے نہیں نکلے

اگرچہ حسرتوں کے باب کتنے ہی کھرچ ڈالے

حروفِ آرزو دل کی کتابوں سے نہیں نکلے

جو زخم بھر چکے تھے انہیں پھر ہرا کیا

 جو زخم بھر چکے تھے انہیں پھر ہرا کیا

اس بے وفا کا جب بھی کبھی تذکرہ کیا

کیوں آپ نے بھی راستہ مجھ سے جدا کیا

کیا بات تھی جو آپ نے یہ فیصلہ کیا

ہر ایک نے کہا کہ اسے بھول جاؤں میں

جب دوستوں سے میں نے کبھی مشورہ کیا

اے مری ماں مجھے آنکھوں میں بسانے والی

 بیٹے کا خط ماں کے نام


اے مِری ماں مجھے آنکھوں میں بسانے والی

لوریاں روز مجھے دے کے سُلانے والی

اپنی غربت کا نہ احساس دلایا تُو نے

خوب کردار مِری ماں کا نبھایا تُو نے

یہ نوازش یہ کرم اور یہ شہرت اے ماں

تُو نے بخشی ہے مجھے علم کی دولت اے ماں

جز ندامت ملال کیا ہو گا

 جز ندامت ملال کیا ہو گا

حاصلِ اشتعال کیا ہو گا

میں کہ خانہ بدوش ہوں مجھ کو

ہجرتوں کا ملال کیا ہو گا

خامشی جب کلام کرتی ہو

پھر وہاں قیل و قال کیا ہو گا

میرا رفیق جو مشہور ہے زمانے میں

 میرا رفیق جو مشہور ہے زمانے میں

اسی نے آگ لگائی تھی آشیانے میں

زرا سی دیر میں سب کچھ بکھر گیا اپنا

تمام عمر لگی تھی جسے بنانے میں

جدھر نگاہ اٹھی، آگ سی بھڑک اٹھی

تیرا جواب نہیں 🗲 بجلیاں گرانے میں

لب خرد سے یہی بار بار نکلے گا

 لبِ خرد سے یہی بار بار نکلے گا

نکالنے ہی سے دل کا غبار نکلے گا

اُگیں گے پھول خیالوں کے ریگزاروں سے

خزاں کے گھر سے جلوسِ بہار نکلے گا

کہیں فریب نہ کھانا یہی فدائے جام

بوقتِ کار عجب ہوشیار نکلے گا

جب وہ جھگڑے مٹا چکے ہوں گے

 جب وہ جھگڑے مٹا چکے ہوں گے

خون کتنا بہا چکے ہوں گے

چاند کا زخم دیکھنے والے

شمعیں کتنی بجھا چکے ہوں گے

کل کے سپنوں کو پالنے والو

کل تو سپنے رُلا چکے ہوں گے

کس رستے سے جانا اور آنا ہے سب کچھ جانتی ہے

 کس رستے سے جانا اور آنا ہے سب کچھ جانتی ہے

بڑھتی عمر کی لڑکی اچھی، بُری نظر پہچانتی ہے

زور زبردستی کرنے والوں کے لیے ہے لا حاصل

اس کے لیے جاں دے سکتی ہے جس کو اپنا مانتی ہے

ہونٹوں پر مُسکان سجائے چُنتی ہے دُکھ کے کنکر

اپنے اشکوں سے تنہائی میں اپنے غم چھانتی ہے

ہم نے چھوڑے ہیں فلک لاکھوں بسیرا کر کے

 ہم نے چھوڑے ہیں فلک لاکھوں بسیرا کر کے

آج بیٹھے ہیں مکاں ہی میں اندھیرا کر کے

میں جو بچھڑا ہوں زمانے سے نئی بات نہیں

سب ستارے چلے جاتے ہیں سویرا کر کے

کیسے یکجا کوئی ہو گا یہاں حق کی خاطر

لوگ جھکتے ہیں یہاں آگے وڈیرا کر کے

وہ بے وفا ہے تو اس کو بھلا کے دیکھو تم

 وہ بے وفا ہے تو اس کو بھلا کے دیکھو تم

ملول ہوتے ہو کیوں؟ مسکرا کے دیکھو تم

نظر سے اپنی ہمیں بھی پلا کے دیکھو تم

ہمارا ظرف کبھی آزما کے دیکھو تم

دکھوں سے جان چھڑانا بھی کوئی مشکل ہے

ذرا سی پی کے غزل گنگنا کے دیکھو تم

اب وہ بےچینئ وصال کہاں

 اب وہ بےچینئ وصال کہاں

اب جگر میں وہ اشتعال کہاں

اب وہ پہلے سے خد و خال کہاں

آپ بھی ویسے پُر جمال کہاں

سر میں سودا ہے دل میں بیچینی

ہے طبیعت میں اعتدال کہاں

دل بہت تنہائی میں گھبرائے گا

 دل بہت تنہائی میں گھبرائے گا

بِن تمہارے چین کیسے آئے گا

ہم تمہارے ہیں یہ کہہ دو ایک بار

کچھ تو الفت کا بھرم رہ جائے گا

لوٹ کر آؤ گے یہ وعدہ کرو

ورنہ پاگل دل بہت تڑپائے گا

تلاش لاکھ کیا میں نے پر نہیں آیا

 تلاش لاکھ کیا میں نے پر نہیں آیا

مجھے فرار کا رستہ نظر نہیں آیا

اٹھے جو ہاتھ خدا سے تجھے ہی مانگا ہے

مگر دعا میں ابھی تک اثر نہیں آیا

چراغ جلتے رہے رات بھر نگاہوں کے

سحر تلک مِرا ہرجائی گھر نہیں آیا

ستارے بات کرتے ہیں

 ستارے بات کرتے ہیں

تو سارے بات کرتے ہیں

اشاروں کی زباں سمجھو

اشارے بات کرتے ہیں

زمیں پر ہم نے دن کیسے

گُزارے بات کرتے ہیں

آنکھ اس کی شراب ہے صاحب

 آنکھ اس کی شراب ہے صاحب

جس کو پینا ثواب ہے صاحب

میں نے سمجھا تھا جس کو اک دریا

وہ تو شاید سراب ہے صاحب

طیش جس پر بھی تیرا پڑ جائے

اس پہ واجب عذاب ہے صاحب

جب بھی چلی ہے تیری بات

 جب بھی چلی ہے تیری بات

ہونٹوں پر مچلے نغمات

چاند کھلے جب راتوں میں

آئے یادوں کی بارات

مانا تیرا ساتھ نہیں

لیکن غم ہے اپنے ساتھ

گرچہ مسائے ہستی میں رنگ شفق نہیں

 گرچہ مسائے ہستی میں رنگِ شفق نہیں

تاہم سخن میں یاس کی کوئی رمق نہیں

نم یادِ رفتگاں میں ہوئی ہے کبھی کبھی

صحرا ہے چشم خشک مگر لق و دق نہیں

محصور اس کے خول میں تا عمر رہ سکوں

کیا اپنی ذات پر مِرا اتنا بھی حق نہیں؟

دن کو بھی اگر رات بتاتا ہوں غزل میں

 دن کو بھی اگر رات بتاتا ہوں غزل میں

میں دل کی ہر اک بات سناتا ہوں غزل میں

سب اپنے سوالات سرِ عام سنائیں

میں اپنے جوابات چھپاتا ہوں غزل میں

رو جاتے ہیں سب اشک شوئی کرنے کے ماہر

جب درد کے جذبات بہاتا ہوں غزل میں

کس طرح رکھ لوں ساتھ کسی ہمسفر کو میں

 کس طرح رکھ لوں ساتھ کسی ہمسفر کو میں

پہچانتا ہوں خوب ہر اک معتبر کو میں

دامن میں جس کے کھیل رہی ہو شبِ سیاہ

کیسے کروں قبول بھلا اس سحر کو میں

روتا ہے دل سیاستِ عہدِ جدید پر

جب دیکھتا ہوں غم سے پریشاں بشر کو میں

اشکوں کو مرے یار چھپا کیوں نہیں دیتے

 اشکوں کو مِرے یار چھپا کیوں نہیں دیتے

سب سوگ میں ہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے

ڈرتے ہو جو لوگوں سے تو اے جانِ تمنا

چپ چاپ مجھے آپ بھلا کیوں نہیں دیتے

جب بات کرو ڈھنگ سے تب ہم بھی کریں گے

ورنہ یہ رقیبوں کو سنا کیوں نہیں دیتے

سزا دیجئے مجھ کو، خطا کر رہی ہوں

 سزا دیجئے مجھ کو، خطا کر رہی ہوں

نمازِ محبت ادا کر رہی ہوں

نا جانے برا یا بھلا کر رہی ہوں

میں دشمن کے حق میں دعا کر رہی ہوں

میرے دوست دریا کنارے کھڑے ہیں

میں طوفان کا سامنا کر رہی ہوں

جو پہلے ذرا سی نوازش کرے ہے

 جو پہلے ذرا سی نوازش کرے ہے

وہی پھر شب و روز سازش کرے ہے

وہ دھوکے پہ دھوکہ دیے جائے لیکن

یہ دل پھر بھی اس کی سفارش کرے ہے

کسی دن ملے وہ کھلونوں کی صورت

مِرا دل بھی بچوں سی خواہش کرے ہے

تہذیب کی راہوں میں دشت آئے جبل آئے

 تہذیب کی راہوں میں دشت آئے جبل آئے

پھر ٹھنڈی ہوا آئی، صحرا میں کنول آئے

اب خوف نہیں آتا دنیا کے رویے سے

آنکھوں سے شرر برسیں یا ماتھے پہ بل آئے

پھر صبح کے نکلے تھے دنیا کو بدل دیں گے

پھر شام کو خود سورج کے ساتھ بدل آئے

لمحہ لمحہ مجھے احساس دلاتے جاؤ

 لمحہ لمحہ مجھے احساس دلاتے جاؤ

میں اکیلا ہوں مجھے اپنا بناتے جاؤ

اے نئے شخص محبت کا تقاضہ یہ ہے

تم میرے درد کی شدت کو مٹاتے جاؤ

تم نے سیکھا ہے کہاں سے یہ محبت کا طریق

کوئی تکلیف میں ہو، اور بڑھاتے جاؤ

ہاتھوں کی بے رنگ لکیریں پڑھ لینا

 ہاتھوں کی بے رنگ لکیریں پڑھ لینا

خون میں ڈوبی کچھ تحریریں پڑھ لینا

کالی جلدوں والے روشن مکتب سے

حق کے حرف کی کچھ تنویریں پڑھ لینا

مرنے والا آنکھ کھلی کیوں رکھتا ہے

ان مِٹ خوابوں کی تعبیریں پڑھ لینا

اے میرے غمخوار ہے رکھا

 اے میرے غمخوار ہے رکھا

ہر اک سانس میں پیار ہے رکھا

اک جانب ہے پیار کی دولت

اک جانب سنسار ہے رکھا

منزل بھی دُشوار ہے اپنی

رستہ بھی دُشوار ہے رکھا

حال دل پر مرے نظر نہ ہوئی

 حالِ دل پر مِرے نظر نہ ہوئی

لٹ گیا میں انہیں خبر نہ ہوئی

اپنے غم میں غزل میں کہتا گیا

لوگ کہتے ہیں بحر پر نہ ہوئی

منتظر تھا خدا مدد کے لیے

پر دعا ہم سے پر اثر نہ ہوئی

نمی پلک کی بتا رہی ہے

 نمی پلک کی بتا رہی ہے

وہ دردِ دل کو چُھپا رہی ہے

وہ قطرہ قطرہ بہا کے آنسو

کہانی اپنی سنا رہی ہے

یہ کون دل سے پکارتا ہے

صدا کہاں سے یہ آ رہی ہے

خدا کے نور سے روشن ہے کائنات مری

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


خدا کے نور سے روشن ہے کائنات مِری

اُسی کی چاہ میں کٹتی ہے بس حیات مری

کرم ہے اس کا ہی اس نے عطا کیا ہے مجھے

نسب وہ جس پہ ہے فاخر سدا یہ ذات مری

کروں میں شکر ادا نعمتوں کا ہر اک پل

رحم سے اس کے مزین معاشیات مری

اللّٰہ اللّٰہ یہ مرتبہ ان کا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


اللّٰہ اللّٰہ یہ مرتبہ انﷺ کا

کوئی ثانی نہ ہو سکا انﷺ کا

سب سے اچھی ہماری عادت ہے

"ذکر کرتے ہیں جا بجا انﷺ کا"

میرے آقاؐ شفیع محشرﷺ ہیں

عاصیوں کو ہے آسرا انﷺ کا

Sunday 28 November 2021

محفل عشق سجانے میں مزا آتا ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


محفلِ عشق سجانے میں مزہ آتا ہے

اپنا ایمان بڑھانے میں مزہ آتا ہے

دل میں مولا کو بسانے میں مزہ آتا ہے

سوئی قسمت کو جگانے میں مزہ آتا ہے

بادشاہوں کی عطا میں ہے کہاں ایسا مزہ

ان سے خیرات جو پانے میں مزہ آتا ہے

میں ذکرِ شہِ انبیاء کر رہی ہوں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


میں ذکرِ شہہِ انبیاؐء کر رہی ہوں

ثنائے حبیبِ خداؐ کر رہی ہوں

میں پھیلا کے دامن دعا کر رہی ہوں

درِ مصطفیٰﷺ پر صدا کر رہی ہوں

مجھے بخش دے زیست کے امتحاں سے

میں رو رو کے یہ التجا کررہی ہوں

نعت کہنا بڑی سعادت ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


اس سے بڑھ کر کوئی سعادت ہے

نعتﷺ کہنا بڑی سعادت ہے

زندگی ان کی زندگی سی ہو

تو کہوں زندگی سعادت ہے

مصطفیٰؐ سے اگر ہے آگاہی

تو ہر اک آگہی سعادت ہے

اللہ سے تو کوثر و تسنیم کدہ مانگ

عارفانہ کلام حمدیہ و نعتیہ کلام


اللہ سے تُو کوثر و تسنیم کدہ مانگ

میخانۂ فردوس میں پینے کی دعا مانگ

کام آئے گا کیا ابر میں لپٹا ہوا مہتاب

چلنا ہے اگر دل کے چراغوں سے ضیا مانگ

نعمت سے ہیں معمور خزانے تِرے رب کے

ذرّہ بھی نہ کم ہو گا تو دامن سے سوا مانگ

تیرا چرچا ہر گلی میں عام ہے

 تیرا چرچا ہر گلی میں عام ہے

ثبت میرے دل پر تیرا نام ہے

غم میرا لفظوں میں سارا ڈھل گیا

ہر طرف کالی گھٹائیں شام ہے

یہ تیرے جلوے ہیں یا قوسِ قزح

یار میرا دوستو! گلفام ہے

میرے محبوب علاج دل بسمل کر دو

 میرے محبوب علاجِ دلِ بسمل کر دو

اپنی چاہت کو مِرے پیار کا حاصل کر دو

اپنی پلکوں کے ستاروں کو بکھر جانے دو

سونی سونی سی ہے دنیا، اسے جھلمل کر دو

کسی ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح لہروں پر

زندگی ڈول رہی ہے، لبِ ساحل کر دو

قربان خواہشات پر اپنی انا نہ کی

 قربان خواہشات پر اپنی انا نہ کی

سائل تھے ہم مگر کبھی ہم نے صدا نہ کی

ہم کو وفا کا درس وہ دے کر چلا گیا

خود اپنے آپ سے کبھی جس نے وفا نہ کی

میں تو گناہ گار ہوں،۔ انسان جو ہوا

خاکی نہیں، فرشتہ ہے جس نے خطا نہ کی

شب وعدہ اندھیرا چھا گیا کیا تم نہ آؤ گے

 شبِ وعدہ اندھیرا چھا گیا کیا تم نہ آؤ گے؟

فلک پر چاند بھی کجلا گیا کیا تم نہ آؤ گے

تمہارا ہجر آفت ڈھا گیا کیا تم نہ آؤ گے

ہمارا دل بہت گھبرا گیا کیا تم نہ آؤ گے

چمن میں ہر طرف گلہائے رنگیں مسکرا اٹھے

بہاروں کا زمانہ آ گیا کیا تم نہ آؤ گے

صحرا صحرا ساگر ساگر میں بھی ڈھونڈوں تو بھی ڈھونڈ

 صحرا صحرا ساگر ساگر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

کون چُھپا ہے کس کے اندر میں بھی ڈھونڈوں تو بھی ڈھونڈ

چور سپاہی ایک برابر،۔ میں بھی ڈھونڈوں بھی ڈھونڈ

کس کے پاس ہے خونی خنجر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

امن و امان کا جسے فرشتہ کہتے ہیں سب دنیا والے

سرحد سرحد وہی کبوتر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

بجھ گیا روشن سویرا ماں ترے جانے کے بعد

 ماں ترے جانے کے بعد


بجھ گیا روشن سویرا ماں تِرے جانے کے بعد 

چھا گیا ہر سُو اندھیرا ماں ترے جانے کے بعد 

غم کا بادل ہے گھنیرا ماں ترے جانے کے بعد 

دم گُھٹا جاتا ہے میرا ماں ترے جانے کے بعد 

کس کے چہرے میں تلاشوں تیرے چہرے کی جھلک 

ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے

 ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے

راستہ جو نہ ہو دشوار تھکا دیتا ہے

جس کا جی زخم کے بھر جانے پہ راضی ہی نہ ہو

چارہ سازوں کو وہ بیمار تھکا دیتا ہے

دیکھنے والا نظر باز بلا کا ہو بھی

تیرے رُخسار کا تل، یار! تھکا دیتا ہے

جو نفرتوں کی فضائیں یہاں بناتے ہیں

 جو نفرتوں کی فضائیں یہاں بناتے ہیں

انہیں کو حاہلِ وطن حکمراں بناتے ہیں

جہاں پہ لوگ محبت کی بات کرتے ہوں

چلو، وہیں پہ نیا آشیاں بناتے ہیں

عیوب سارے ہمارے وہ کھول دیتے ہیں

جنہیں رفیق سمجھ رازداں بناتے ہیں

آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

 آ رہا ہے مِرے گمان میں کیا؟

کوئی رہتا تھا اس مکان میں کیا

وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے

دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

اک تِری دِید کی تمنا ہے

اور رکھا ہے اس جہان میں کیا

دل کے قفس سے آج اڑا دیجئے مجھے

 دل کے قفس سے آج اڑا دیجئے مجھے

یوں کیجئے جناب! گنوا دیجئے مجھے

یہ لیجئے، ہے آپ کا سارا وجود اور

میں آپ سے ہوں جتنا بچا دیجئے مجھے

ہنسنے کا تو کہا تھا؛ مگر یہ نہیں کہا

یوں مسکرا کے اور رُلا دیجئے مجھے

دن بھی کٹتے نہیں ہیں فاقوں کے

 دن بھی کٹتے نہیں ہیں فاقوں کے

لوگ جاگے ہوئے ہیں راتوں کے

ہاتھ آنکھوں پہ میری رکھ دو نا

معجزے دیکھنے ہیں ہاتھوں کے

کون دے گا نوید صبحوں کی 

کون پونچھے گا اشک راتوں کے

یہی سچ ہے حقیت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

 یہی سچ ہے حقیت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

ہمیں تم سے محبت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

شب تاریک میں اکثر یہی محسوس ہوتا ہے

ہمیں تیری ضرورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

تیری زلفیں، تیری آنکھیں، یوں تیرا مسکرا دینا

قیامت ہی قیامت ہے، مگر ہم کہہ نہیں سکتے

روگ طرفہ سا لگا ہے کہ تلافی بھی نہیں

روگ طُرفہ سا لگا ہے کہ تلافی بھی نہیں

چین پڑتا ہی نہیں دل کو، اُداسی بھی نہیں

سخت مُشکل ہے، نِبھانی ہے اُسی ایک سے ہی

میری وحشت کو تو اک شخص وہ کافی بھی نہیں

میں نے صُبحوں کے اُجالے نہیں دیکھے اب تک

میرے حصے میں تو شاموں کی سیاہی بھی نہیں

آیا چمن میں کون کہ خوشبو بکھر گئی

 آیا چمن میں کون کہ خوشبو بکھر گئی

دامن حیات کا نئی خوشیوں سے بھر گئی

اس کی نظر میں جانے تھی کیسی عجب بات

آنکھوں کے راستے مِرے دل میں اتر گئی

پژمُردہ ٹہنیوں پہ شگوفے نکل پڑے

🎕بادِ صبا بہار کا اعلان کر گئی🎕

خود کو خود سے ہی بے خبر رکھا

 خود کو خود سے ہی بے خبر رکھا

تیری یادوں کو ہمسفر رکھا

زندگی دیکھ تیری چاہت میں

تیرے غم کو بھی معتبر رکھا

جس کی تصویر تھی مِرے دل میں

اس کے کوچے میں اپنا گھر رکھا

دل جس میں بہل جائے وہ بستی بھی کہیں ہے

دل جس میں بہل جائے وہ بستی بھی کہیں ہے

ہم درد کے ماروں کی تسلی بھی کہیں ہے

سنّاٹا نکلتا ہے در و بام سے اب تو

جیسی ہے مِرے گھر وہ اُداسی بھی کہیں ہے

ہم اہلِ جنوں کے لیے صحرا بھی نہیں اب

بستی کوئی دھرتی پہ ہماری بھی کہیں ہے

آسمانوں میں ستارے دیکھتے

 آسمانوں میں ستارے دیکھتے

عشق کرتے تو نظارے دیکھتے

کیا خطا پہلے کوئی کرتا نہ تھا

جو بگڑ کر مجھ کو سارے دیکھتے

عشق میں سہنا پڑے تھے درد یہ

آپ میرے وارے نیارے دیکھتے

اس کے جاتے ہی یہ سب کیا ہو گیا

 اس کے جاتے ہی یہ سب کیا ہو گیا

آسماں کا رنگ میلا ہو گیا

روشنی ٹکرا گئی دیوار سے

راستہ کچھ اور لمبا ہو گیا

پہلے اس جیسا مجھے ہونا پڑا

اور پھر وہ میرے جیسا ہو گیا

میری خاموشی میں وقت کی آواز پنہاں ہے

میری خاموشی میں

وقت کی آواز پنہاں ہے

اس میں ہے

شمع کی لرزاں جُنبش

اور آگ کی گرمی

طوفان کا اضطراب ہے

رتجگوں کا مارا وقت سو رہا ہے

 رتجگوں کا مارا وقت


صدیوں کا سفر طے کر کے

وقت کے دروازے پر پہنچی تو معلوم ہوا

رتجگوں کا مارا وقت

دن چڑھے تک سو رہا ہے

وہ جو کبھی رکا نہیں

دل میں ہر دم یہ تشنگی کیوں ہے

 دل میں ہر دم یہ تشنگی کیوں ہے

نا مکمل سی زندگی کیوں ہے

روشنی ماند پڑ گی ہے کیا

چار سُو اتنی تیرگی کیوں ہے

خود نمائی کا بول بالا ہے

میری فطرت میں سادگی کیوں ہے

دريچہ زندگى کا کھل رہا ہے

 دريچہ زندگى کا کھل رہا ہے

قدم فانى کى جانب چل رہا ہے

کسى مريم کى آمد لگ رہى ہے

حادثہ زندگى سے ٹل رہا ہے

اندھيرى رات میں مہتاب جيسا

ہميشہ رُخ پہ تيرا تِل رہا ہے

موت سر پر ہے مارنے کے لئے

 موت سر پر ہے مارنے کے لیے

بس خدا ہے پکارنے کے لیے

سب کو اونچائی سے تکبر کی

رب ہے کافی اتارنے کے لیے

آج فاتح جہاں کے کہتے ہیں

کچھ بچا ہی نہ ہارنے کے لیے

چھینٹے دو چار ہیں محبت کے

 چھینٹے دو چار ہیں محبت کے

ورنہ بے رنگ ساری تصویریں

خوں ٹپکتا ہے زخم سے دل کے

روز دیتا ہے عشق تعزیریں

تجھ سے بچنے کو گردشِ دوراں

روز کرتے ہیں کتنی تدبیریں

زخم ہیں بے حساب مت مانگو

 زخم ہیں بے حساب مت مانگو

مجھ سے تُم میرے خواب مت مانگو

نیکیاں نیکیاں ہی کرتے رہو

نیکیوں کا حساب مت مانگو

ننھا جگنو ہوں میں مِرا کیا ہے

مجھ سے تُم ماہتاب مت مانگو

ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ

 ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ

سایہ سا نظر آتا ہے ہر ساز کا چہرہ

آنکھوں کی گپھاؤں میں تڑپتی ہے خموشی

خوابوں کی دھنک ہے مِرے ہم راز کا چہرہ

میں وقت کے کہرام میں کھو جاؤں تو کیا غم

ڈھونڈے گا زمانہ مِری آواز کا چہرہ

ان چراغوں سے عداوت کیا ہے

 ان چراغوں سے عداوت کیا ہے

اے ہواؤ! یہ شرارت کیا ہے

گُل بھی کلیاں بھی وہی موسم بھی

پھر یہ گُلشن پہ مصیبت کیا ہے

کر لیا کرب تمہارا محسوس

مسکرانے کی ضرورت کیا ہے

سر کو بچاتے یا در و دیوار بیچتے

 سر کو بچاتے یا در و دیوار بیچتے؟

سر کی حفاظتوں میں کیا دستار بیچتے

شہرت کے مول خوب لگے شہر میں مگر

ہم محترم کہاں تھے؟ جو کردار بیچتے

اس کانپتی زمین نے سب خاک کر دیا

ورنہ ہم آرزوؤں کے مینار بیچتے

مجھ کو وحشت مل گئی اور وہ جیا اچھا ہوا

 مجھ کو وحشت مل گئی اور وہ جیا اچھا ہوا

پڑھنے والوں کے لیے ساماں ہوا اچھا ہوا

میں ہوا بے گھر مگر تم کو ٹھکانہ مل گیا

تیری میری زندگی کا فیصلہ اچھا ہوا

سامنے منزل تھی پر آواز آئی لوٹ جا

یوں مِری تقدیر کا سودا ہوا اچھا ہوا

لازم ہے آدمی کے لیے ذات کا سفر

 لازم ہے آدمی کے لیے ذات کا سفر

اس دور میں کٹھن ہے مگر رات کا سفر

ساحل قریب آتے ہی کشتی سلگ اٹھی

شاید ہوا تمام ہے جذبات کا سفر

اُڑنے لگا ہوں جیسے مجھے پنکھ لگ گئے

تعبیر ہو گیا ہے ملاقات کا سفر

گناه کیسا عذاب و ثواب کون لکھے

 گناه کیسا، عذاب و ثواب کون لکھے

ہوا کے ماتھے پہ تقریرِ آب کون لکھے

حقیقوں کے سمندر کو خواب کون لکھے

سفید خون سے اب انقلاب کون لکھے

میں قرض بن کے تِرے ساتھ ہی تو لوں لیکن

سوال یہ ہے کہ اس کا حساب کون لکھے

میں بکھیر دوں اسے حرف حرف

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


میں بکھیر دوں اسے حرف حرف

میں سمیٹ لوں اسے لفظ لفظ

مِری روشنائی میں نور دے

مِری فکر کو وہ شعور دے

کہ لکھوں تو مجھ پہ ہوں منکشف

مِرے صدقِ دل کی عبارتی

Saturday 27 November 2021

سب کہیں گے میری ہر بات پہ ماشاء اللہ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


سب کہیں گے میری ہر بات پہ ماشاء اللہ

کہہ دیں آقاﷺ جو مِری نعت پہ ماشاء اللہ

سرورِ دِیںﷺ کی بدولت ہی مدینہ تیری

صبح اور شام پہ دن، رات پہ ماشاء اللہ

مصطفیٰؐ کرتے تھے جس لمحہ تلاوت اس پل

ہوتا ہو گا لبِ آیات پہ ماشاء اللہ

جو نبی کا غلام ہو جائے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


جو نبیؐ کا غلام ہو جائے

وہ ہمارا امام ہو جائے

آتا جاتا رہوں مدینہ کو

عمر یونہی تمام ہو جائے

بند مٹھی میں حکمِ آقاؐ سے

کنکروں سے کلام ہو جائے

نبی کے پیار میں جتنے بھی اشکبار ملے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نبیؐ کے پیار میں جتنے بھی اشکبار ملے

جہانِ عشق میں وہ لوگ تاجدار ملے

ہمیشہ زندگی میری بھی خوشگوار ملے

حضورﷺ آپ کا رہنے کو گر، دیار ملے

پسینہ جن کو ملا ہے رسول اکرمﷺ کا

تو ان کی آل کے غنچے بھی خوشبو دار ملے

موتیوں کو چھوڑ مجھ سے پتھروں کا مول کر

 موتیوں کو چھوڑ مجھ سے پتھروں کا مول کر

گرد کے بازار میں اترا ہوں دامن کھول کر

میں نے ہر آواز کی سرحد پہ گاڑے ہیں علم

دار پر کھِنچنا پڑا، تیری گلی میں بول کر

تیری کِشتِ دل پہ چمکے گا نہ کوئی آفتاب

اپنے خوں سے آپ ہی تعمیر اپنا خول کر

محبتوں میں کمال کر کے بھی کیا ملا ہے

 محبتوں میں کمال کر کے بھی کیا ملا ہے

دھڑکتے دل کو دھمال کر کے بھی کیا ملا ہے

ملے جو پرسانِ حال آنسو بہا گئے وہ

انہیں شناسائے حال کر کے بھی کیا ملا ہے

ہو وصل چاہے کہ ہجر لیکن ہو مستقل وہ

بہم فراق و وصال کر کے بھی کیا ملا ہے

یہ جھوٹ ہے کہ بچھڑنے کا اس کو غم بھی نہیں

 یہ جھوٹ ہے کہ بچھڑنے کا اس کو غم بھی نہیں

وہ رو رہا ہے مگر اس کی آنکھ نم بھی نہیں

یہ بات سچ ہے کہ وہ زندگی نہیں میری

مگر وہ میرے لیے زندگی سے کم بھی نہیں

تجھے پتہ ہی نہیں میری راہ کیسی ہے

تُو چل سکے گا مِرے ساتھ دو قدم بھی نہیں

گڑ گئیں جسم میں احساس کے کیلیں کیسے

 گڑ گئیں جسم میں احساس کے کیلیں کیسے

منجمد ہو گئیں جذبات کی جھیلیں کیسے

تلخ پانی کا سمندر ہے ہمارا مسکن

کیا خبر سجتی ہیں ہر سمت سبیلیں کیسے

ہم نے زنبیلِ محبت میں رکھا تھا جن کو

منتشر ہو گئیں وہ درد کی کھیلیں کیسے

یوں خود کو بدل دینا آسان اگر ہوتا

 یوں خود کو بدل دینا، آسان اگر ہوتا

نیچی سی نظر ہوتی، دل موم کا گھر ہوتا

پہرے نہ بٹھا دیتا، سورج مِری آنکھوں پر

نیندوں میں ہی گُم رہتا، خوابوں میں سفر ہوتا

پھیلے ہوئے شہروں میں، خواہش کے اُگے جنگل

چھوٹی سی تمنا کا، چھوٹا سا نگر ہوتا

منصف ہو بھلا حکم سنا کیوں نہیں دیتے

 منصف ہو بھلا حکم سنا کیوں نہیں دیتے

مجرم ہوں اگر میں تو سزا کیوں نہیں دیتے

دیوار کھڑی ہو گئی نفرت کی بہر سُو

اربابِ وفا اس کو گرا کیوں نہیں دیتے

وہ خوگرِ دشنام جو افلاک نشیں ہیں

اوقات کبھی ان کی بتا کیوں نہیں دیتے

کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا

 "کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا"

لیے نفرت کی وہ خنجر مجھے ہی ڈھونڈتا ہو گا

کبھی جب چہچہاتی کوئی لڑکی سامنے گزرے

تو واعظ تھام کر دل کو اسے ہی گھورتا ہو گا

مِری حالت بتا دوں کیا، زرا سوچو تو ماہی کا

🐟بِنا پانی لبِ دریا تڑپنا تو سنا ہو گا🐟

خدا صدیوں سے خاموش ہے اب کوئی آیت نہیں اترے گی

 معصوم لڑکیو


خدا صدیوں سے خاموش ہے

اب کوئی آیت نہیں اترے گی

تمہارے بارے میں فیصلے 

تمہارے پیدا ہونے سے سے پہلے ہو چکے ہیں

تم کسی کی محبت کی نشانی نہیں

اب وہ ہمارے ساتھ ہو یا دلبروں کے ساتھ

 اب وہ ہمارے ساتھ ہو یا دلبروں کے ساتھ

ہے ہر قدم پہ اس کی انا کمتروں کے ساتھ

آگے بڑھے تو رک گئے اخلاق کے طفیل

کتنا گراں ہوا ہے سفر ہمسروں کے ساتھ

ایسا بھی کیا جنون کہ صحرا کی راہ لیں 

ہے شہر میں بھی سنگ کا رشتہ سروں کے ساتھ

مجھے شوق دید میں پا کے گم وہ نقاب الٹ کے جو آ گئے

 مجھے شوقِ دید میں پا کے گم وہ نقاب الٹ کے جو آ گئے

نظر اور کچھ بھی نہ آ سکا وہ میری نظر میں سما گئے

کہاں اپنی ایسی تلاش تھی کہاں اپنی تھی ایسی جستجو

یہ تیرے کرم ہی کی بات ہے تیری بارگاہ میں آ گئے

مجھے تیر آراہوں کا غم نہیں میں گزر ہی جاؤں گا ہم نشیں

وہ دکھا کے مجھ کو رخِ مبیں میرے دل کی شمع جلا گئے

اس طرح کی باتوں میں احتیاط کرتے ہیں

 اس طرح کی باتوں میں احتیاط کرتے ہیں


زندگی کی راہوں میں

بارہا یہ دیکھا ہے

صرف سن نہیں رکھا

خود بھی آزمایا ہے

تجربوں سے ثابت ہے

محبت ہو کسی سے والہانہ غیر ممکن ہے

 محبت ہو کسی سے والہانہ غیر ممکن ہے

مسلسل اب جگر پر چوٹ کھانا غیر ممکن ہے

چبھن سینے میں ہو تو مسکرانا غیر ممکن ہے

لبوں پر عارضی مسکان لانا غیر ممکن

جہاں تک ہو رسائی آپ کی اتنا ہی دم بھرئیے

پہنچ سے دور ہر اک شے کا پانا غیر ممکن ہے

برق نگاہ یار گری آشیاں کے بیچ

 برقِ نگاہِ یار گری آشیاں کے بیچ

بسمل تڑپ کے رہ گیا جلتے مکاں کے بیچ

بلبل! چمن سے دور کہیں آشیاں بنا

صیّاد باغباں ہیں اسی گلستاں کے بیچ

ڈولی نہ پالکی ہے، نہ رقص و سرود ہے

کس کی برات نکلی ہے آہ و فغاں کے بیچ

دیکھا ہے جس کسی کو گرفتار عشق ہے

 دیکھا ہے جس کسی کو گرفتارِ عشق ہے

جو بھی ہے اس جہاں میں طلبگارِ عشق ہے

ہر شے کے جیسے دام وہاں پر کھرے ملے

بازارِ عشق ہے وہ تو بازارِ عشق ہے

برسوں کی دوریوں کو یہ جو قربتیں ملیں

کہنے لگے ہیں لوگ کہ یہ کارِ عشق ہے

خوشبو کے امکان بناتے عمر لگی

 خوشبو کے امکان بناتے عمر لگی

یہ کمرہ گلدان بناتے عمر لگی

تاریکی میں میرے بال سفید ہوئے

گھر میں روشندان بناتے عمر لگی

مٹی میں پانی کا تناسب زائد تھا

کوزے کو یک جان بناتے عمر لگی

رات گھنیری ہو جاتی ہے

 رات گھنیری ہو جاتی ہے

آنکھوں کے دروازوں پر

کھینچ کے پلکوں کے پردے

جب بھی میں سو جاتا ہوں

نیند کی کھڑکی کھل جاتی ہے

چپکے چپکے تیرے خواب

پوچھنا کیا ہے کیوں وہ آیا تھا

 پوچھنا کیا ہے کیوں وہ آیا تھا

باغ میں تتلیوں نے لایا تھا

رات شعلہ تھی آب پر چمکی

آنکھ میں دیر تک اجالا تھا

میں نے شیشے کو چھو لیا تھا بس

کانپنے کیوں لگا جو اپنا تھا

تری یاد در کھٹکھٹانے لگی ہے

 تِری یاد در کھٹکھٹانے لگی ہے

یہ کُٹیا مِری جگمگانے لگی ہے

اُسے شاعری سے لگاؤ نہیں پر

وہ غزلیں مِری گنگنانے لگی ہے

اِدھر سے بھی آواز دیتی ہے دنیا

اُدھر سے لحد بھی بلانے لگی ہے

دشت کی بد دعا نہ لو لوگو

 دشت کی بد دعا نہ لو لوگو

پیڑ کہتا ہے کیا سنو لوگو

زندگی اک حسین منظر ہے

ہر گھڑی دیکھتے رہو لوگو

میرے ہاتھوں نے چُھو لیا ہے اسے

میرے ہاتھوں کو چُوم لو لوگو

عشق میں شائبہ نہیں ہوتا

 یا تو ہوتا ہے، یا نہیں ہوتا

عشق میں شائبہ نہیں ہوتا

روح سے روح کے تعلق میں

جسم کا سلسلہ نہیں ہوتا

میرے ظاہر سے میرے باطن تک

تم سے کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا

ہر ساتھ گزری رات کو ہلکا لیا گیا

 ہر ساتھ گزری رات کو ہلکا لیا گیا

سارے معاملات کو ہلکا لیا گیا

نا آشنا نہ تھے مِرے حالات سے مگر

پھر بھی مِری بساط کو ہلکا لیا گیا

کچھ سوچ کر ہی آیا تھا دہلیز پر تِری

محفل میں جس کی بات کو ہلکا لیا گیا

مکان دل کرچیاں پڑی ہیں جگہ جگہ

 مکانِ دل


کرچیاں پڑی ہیں جگہ جگہ

چُنتے چُنتے انگلیاں پیروں کی 

لہو اُگلنے لگ گئیں

پتیاں بکھری ہیں کُو بہ کُو

رِستے ہوئے ہاتھوں میں 

آج ہر دن یہاں عبرت کی گھڑی ہے یارو

 آج ہر دن یہاں عبرت کی گھڑی ہے یارو

کیا یہی وقت کی سوغات بڑی ہے یارو

بے بسی تیرہ شبی اپنا مقدر تو نہیں

بحرِ ظلمات میں بھی جنگ لڑی ہے یارو

ہم نے ہر عہد کو تحریکِ سفر دی لیکن

زندگی پھر بھی سرِ راہ کھڑی ہے یارو

اداسی کے منظر مکانوں میں ہیں

 اُداسی کے منظر مکانوں میں ہیں

اندھیرے ابھی آشیانوں میں ہیں

محبت کو موسم نے آواز دی

دلوں کی پتنگیں اُڑانوں میں ہیں

زباں والے بھی کاش سمجھیں کبھی

وہ دُکھ درد جو بے زبانوں میں ہیں

سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے

کشمکش


سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے

وہ میرے رنج ومصائب کا مداوا تو نہ تھی

رنگ افشاں تھی مرے دل کے خلاؤں میں مگر

ایک عورت تھی علاجِ غم دنیا تو نہ تھی


میرے ادراک کے ناسور تو رستے رستے

میری ہو کر بھی وہ میرے لئے کیا کر لیتی

دل دھڑکنے کا انداز بدلا نہیں

 دل دھڑکنے کا انداز بدلا نہیں

اک تعلق ابھی اس سے ٹوٹا نہیں

کتنے رنگین پیکر ملے راہ میں

جس کو ڈھونڈا اسے میں نے پایا نہیں

مجھ کو معلوم تھیں اس کی مجبوریاں

جانے والے کو پھر میں نے روکا نہیں

دیکھو کتنا سادہ ہوں

 دیکھو کتنا سادہ ہوں

اب بھی تم پہ مرتا ہوں

تم نے کون سا ملنا ہے

میں کتنا بھی اچھا ہوں

اچھے سے کیا ہوتا ہے

میں تو آج اکیلا ہوں

کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی

 کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی

عمر ہنستے ہوئے گزر نہ ہوئی

وصلِ خورشید کو لگا گِرہن

پھر شبِ ہجر کی سحر نہ ہوئی

صرف ٹوٹی روانی دھڑکن کی

کُل اذیت بھی دار پر نہ ہوئی

کتنی حسین لگتی ہے چہروں کی یہ کتاب

 کتنی حسین لگتی ہے چہروں کی یہ کتاب

سطروں کے بیچ دیکھیۓ پھیلا ہوا عذاب

چیخوں کا کرب نغموں کے شعلے ورق ورق

احساس بن رہا ہے جواں درد کی کتاب

میزانِ دل میں تولیے پھولوں سے ہر اُمید

لمحوں میں گُھل رہا ہے تمناؤں کا شباب

ہے سیاست تو شب و روز تماشا ہو گا

 ہے سیاست تو شب و روز تماشا ہو گا

امن کے نام پہ بارود کا سودا ہو گا

سب نے کل رات یہی خواب میں دیکھا ہو گا

مرغ بولے گا ابھی اور سویرا ہو گا

جانے کس طرح سے رات اس نے گزاری ہو گی

ماں نے جب بچے کو بھوکا ہی سلایا ہو گا

جس رستے پر ہم کو چلنا ہوتا ہے

 جس رستے پر ہم کو چلنا ہوتا ہے

وہ رستہ تو ٹیڑھا میڑھا ہوتا ہے

شانِ نبیؐ تو دیکھ اسی سے ملتے ہیں

جس نے ان پر کُوڑا پھینکا ہوتا ہے

روزانہ سب شوق سے دیکھا کرتے ہیں

روزانہ دنیا میں تماشا ہوتا ہے

یہ باپ بیٹی و بھائی بہنا کا ہر حوالہ حسین سے ہے

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امامؑ عالی مقام


یہ باپ بیٹی و بھائی بہنا کا ہر حوالہ حسؑین سے ہے

تو جانتا ہے کہ رب کی بستی میں جو اجالا حسؑین سے ہے

تو لاکھ کر لے دفاع کی کوشش یزید مردود ہی رہے گا

تو یاد رکھ لے لعین پرور کہ تیرا، پالا حسؑین سے ہے

تو شمرجنتا عیار ہو گا، تجھے یہ سب اختیار ہو گا

تو قاری حافظ ہزار لائے تِرا مقالہ حسؑین سے ہے

مری آنکھ میں ترا نور ہے

 حمدِ باری تعالیٰ


مِری آنکھ میں تِرا نور ہے

جہاں عشق ہے وہیں طور ہے

میں الجھ گیا مِرے عکس میں

تِرے آئینہ کا قصور ہے

وہی رات دن وہی صبح و شام

نہ غروب ہے، نہ ظہور ہے

جس کی چاہت ہو مری بات نہ ٹالی جائے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


جس کی چاہت ہو مِری بات نہ ٹالی جائے

در پہ سرکارﷺ کے بن کر وہ سوالی جائے

آئیے سرور عالمﷺ سے محبت کر کے

اپنی اجڑی ہوئی دنیا بھی بسا لی جائے

جن کی فرقت میں تڑپتا ہوں شب و روز یہاں

ان سے ملنے کی کوئی راہ نکالی جائے

جب دیکھا کمر باندھے ہوئے ماں نے پسر کو

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب دیکھا کمر باندھے ہوئے ماں نے پسر کو

صدمہ ہوا تب بانوئے مجروح جگر کو

ہمشکلِ نبیؑ سے یہ کہا پیٹ کے سر کو

قربان یہ ماں ہو گئی جاتے ہو کدھر کو

اس وقت کسی کام کو بابا کے چلے ہو

یا کس کے کمر لینے کو صغراؑ کے چلے ہو

تنہائی کی قبر سے اٹھ کر میں سڑکوں پر کھو جاتا ہوں

 تنہائی کی قبر سے اٹھ کر میں سڑکوں پر کھو جاتا ہوں

چہروں کے گہرے ساگر میں مُردہ آنکھیں پھینک آتا ہوں

میں کوئی برگد تو نہیں ہوں صدیوں ٹھہروں اس دھرتی پر

دُھند میں لپٹے خوابوں کا قد لمحہ لمحہ ناپ رہا ہوں

وہ تو جُھوٹ کی چادر اوڑھے پھیلا ساگر پھاند چکا ہے

میں ہی سچ کی مالا جپتے اس دھرتی میں ڈُوب رہا ہوں

Friday 26 November 2021

کیا چاہا تھا کیا سوچا تھا کیا گزری کیا بات ہوئی

 کیا چاہا تھا کیا سوچا تھا کیا گُزری کیا بات ہوئی

دل بھی ٹُوٹا گھر بھی چُھوٹا رُسوائی بھی ساتھ ہوئی

وہ کیا جانے اس سے بچھڑ کے ہم پر کیا کیا گُزری ہے

صحرا جیسا دن کا عالم،۔ پربت جیسی رات ہوئی

اس کے خط کو کیسے پڑھوں میں سارے لفظ تو بھیگے ہیں

میری چھت پر بادل چھائے، اس کے گھر برسات ہوئی

جنوں کی راہ میں پہلے در جانانہ آتا ہے

 جنوں کی راہ میں پہلے درِ جانانہ آتا ہے

فراغت ہے پھر اس کے بعد ہی ویرانہ آتا ہے

یہ دل کی بات ہے اور بات یہ دل ہی سمجھتا ہے

ہمارے پاس اکثر چل کے خود مے خانہ آتا ہے

کرو ہر گام پر سجدے، محبت کا تقاضہ ہے

بہت نزدیک ہے، اور یار کا کاشانہ آتا ہے

زلفوں کو زنجیر بناتا رہتا ہوں

 زلفوں کو زنجیر بناتا رہتا ہوں

بادل سے تصویر اُگاتا رہتا ہوں

کاغذ کا دل تِل تِل کالا ہوتا ہے

اپنے عیبوں پر شرماتا رہتا ہوں

ہر رشتے کی اپنی حِدت ہوتی ہے

مٹی رکھ کر چاک گُھماتا رہتا ہوں

ہے راز ہستی کہ میرے دل میں یہ نور کیوں ہے یہ رنگ کیوں ہے

 ہے رازِ ہستی کہ میرے دل میں یہ نور کیوں ہے یہ رنگ کیوں ہے

زمانہ میری انا شناسی، وفا پرستی پہ دنگ کیوں ہے

نظر میں تھی جس نظر کی وُسعت وہی نظر اتنی تنگ کیوں ہے

شعور والوں کے ذہن و دل پر یہ تنگ نظری کا زنگ کیوں ہے

زبانِ فطرت کی ہر صدا پر سوال کرتے ہیں ساز و نغمے

اذانِ حق پر ہے ناز اس کو تو ہاتھ میں پھر یہ چنگ کیوں ہے

اس ریاضت کا مری جان صلہ کچھ بھی نہیں

 اس ریاضت کا مِری جان صِلہ کچھ بھی نہیں

عشق کا کھیل شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

ضبط کے کون سے زینے پہ میں آ پہنچی ہوں

ہاتھ اٹھے ہیں، مگر حرفِ دعا کچھ بھی نہیں

اب تو 🌞 خورشید بکف ہم کو ابھرنا ہو گا

ان اندھیروں میں فقط ایک دِیا کچھ بھی نہیں

کتنا آسان ہے اک دوسرے کا ہو جانا

 کتنا آسان ہے اک دوسرے کا ہو جانا

پیار کا حد سے گزرنا ہے جدا ہو جانا

یہ تو تقدیر نے کھیلا ہے مِرے جذبوں سے

ورنہ دشوار نہ تھا اس کا مِرا ہو جانا

میں تو مفلس ہوں مِرے پاس ہنر کوئی نہیں

زرد پتے کی تمنا ہے ہرا ہو جانا

احساس بن کے مجھ میں اترنے لگی ہے شام

 احساس بن کے مجھ میں اترنے لگی ہے شام

تم آ گئے ہو جب سے سنورنے لگی ہے شام

جب سے سنا ہے وصل کی ساعت قریب ہے

سینے میں آس بن کے دھڑکنے لگی ہے شام

گزرے تھے روز و شب جو رہِ التفات میں

پھر اس کو کو یاد کر کے مچلنے لگی ہے شام

گھر لپٹ جائے گا قدموں سے کہاں جاؤ گے

 گھر لپٹ جائے گا قدموں سے کہاں جاؤ گے

اپنی مٹی کی بھی خوشبو کو ترس جاؤ گے

چند روزہ ہے جہاں تھوڑے سے لمحوں کا عروج

اتنا ہی اُچھلو میاں، جتنا کہ سنبھل پاؤ گے

کب تلک سوچو گے بیٹھے ہوئے ساحل کے قریں

تیر جاؤ گے جو دریا میں اُتر جاؤ گے

میرا سرمایہ ہے جاں میری وفا تم رکھ لو

 میرا سرمایہ ہے جاں میری وفا تم رکھ لو

مجھ کو بیمار ہی رہنے دو دوا تم رکھ لو

قید رہنے دو سدا حبس کے موسم میں مجھے

سرخ موسم کے دریچوں کی ہوا تم رکھ لو

اوڑھ کر بیٹھی ہوں میں کب سے دکھوں کی چادر

میری خوشیوں کی یہ رنگین قبا تم رکھ لو

ایک طویل عمر تم اور میں

سکون


 ایک طویل عمر

تم اور میں

اپنے اپنے گھروں میں بند تھے

جہاں زندگی نے کڑے پہرے لگا رکھے تھے

اصولوں کے رشتوں کے اور فرائض کے

وہ چاہے روپ نیا کوئی اختیار کرے

 وہ چاہے رُوپ نیا کوئی اختیار کرے

اب اس سے کون تعلق پھر استوار کرے

نکل کے آتی ہے دل کے گُلاب خانے سے

وہ بات سُوکھی زباں کو جو آبدار کرے

کبھی تو سچ بھی دِکھائے یہ آئینہ خانہ

کبھی تو ظُلم و ستم اس کے آشکار کرے

تپتے صحراؤں کی آنکھوں کو نمی دے دی گئی

 تپتے صحراؤں کی آنکھوں کو نمی دے دی گئی

زندگی مانگی گئی تھی، زندگی دے دی گئی

میرے لب پر آ گیا تھا آخرش یہ کس کا نام

رات کی تاریکیوں کو روشنی دے دی گئی

ہم نے سوچا تھا فقط اس کو ابھی دیکھا نہ تھا

ایک عرصے کے لیے اک بے خودی دے دی گئی

وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے

 وہ سامنے ہوں مِرے اور نظر جھکی نہ رہے

متاعِ زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے

دِیے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر

اے تند و تیز ہوا! تجھ کو برہمی نہ رہے

بتاؤ، ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے

چراغ جلتے رہیں، اور روشنی نہ رہے

خود اپنے اندر کی بے ثباتی سے رابطہ ہے

 خود اپنے اندر کی بے ثباتی سے رابطہ ہے

یہ ہم قلندر مزاج لوگوں کا مسئلہ ہے

پرائی چیزوں پہ کیا بھروسہ کہ جانتے ہیں

یہ دل ہمارا نہیں رہا ہے، یہ آپ کا ہے

ابھی تلک جو وجود پانے سے منحرف ہے

ہمارے مابین اس زمانے کا فاصلہ ہے

جب کاندھوں پر ذمہ داری رہتی ہے

 جب کاندھوں پر ذمہ داری رہتی ہے

تب مشکل میں جان ہماری رہتی ہے

سب الزام محبت پر کیا دھر دیجیۓ

کچھ اپنی بھی دعویداری رہتی ہے

ایک محبت جس کو سب اپناتے ہیں

اک نفرت جو ماری ماری رہتی ہے

کوئی لمحہ جو تری یاد سے خالی جائے

 کوئی لمحہ جو تِری یاد سے خالی جائے

اُسی لمحے کو میری روح نکالی جائے

تِرے جیسا جو کوئی اور حسیں ہے ہی نہیں

تِرے چہرے سے نظر کیسے ہٹا لی جائے

ہوں مخاطب جو کبھی حُسن کے پیکر سے میں

مجھ پہ لازم ہے کہ تب نظر جھکا لی جائے

ہم آئے ہیں ان سخت راہوں پہ چل کے

 ہم آئے ہیں ان سخت راہوں پہ چل کے

جہاں رہ گئے راہبر ہاتھ مل کے

بہت معتبر ہیں وہ جذبات سارے

جو آئے نہ لب تک، نہ آنکھوں سے جھلکے

نگاہوں کا اک پل ہوا تھا تصادم

مچے دل کی بستی میں کتنے تہلکے

میرے لفظوں کی زندگی کیا ہے

 میرے لفظوں کی زندگی کیا ہے

تم نہ سمجھو تو شاعری کیا ہے

ہم نے اپنا وجود کھویا ہے

ہم سے پوچھو کہ عاشقی کیا ہے

اے ستاروں کے بادشہ! بتلا

چاند عاشق ہے چاندنی کیا ہے

تشنگی کو بڑھا گئیں آنکھیں

 تشنگی کو بڑھا گئیں آنکھیں

قلبِ مضطر کو بھاگئیں آنکھیں

پیاس ساری بجھا گئیں آنکھیں

"اپنا جلوہ دکھا گئیں آنکھیں “

اس کا نظریں چُرا کے شرمانا

مجھ کو پاگل بنا گئیں آنکھیں

ہمارے شہر کا انجام لکھ دو

 ہمارے شہر کا انجام لکھ دو

تباہی ہرطرف ہے عام لکھ دو

حقیقت اب ہے طشت ازبام لکھ دو

ہوا ہے قوم کا نیلام لکھ دو

کسی کے صبر کا انعام لکھ دو

ہے اب صیاد زیر دام لکھ دو

وہ مجھے دے کے بددعا گزرا

 وہ مجھے دے کے بددعا گزرا

حادثہ سوچ پر نیا گزرا

بھاگ نکلے یوں حسن کے پیچھے

عشق ہوتا نہیں گیا گزرا

ہم تغافل کی زد میں ہیں اب کے

چپکے چپکے وہ کج ادا گزرا

کسی کی محبت میں مسمار ہونا

 کسی کی محبت میں مسمار ہونا

بڑا پُر خطر ہے یہاں پیار ہونا

کہیں دھڑکنیں بند کر دے نہ میری

کہیں جاں نہ لے لے جگر تار ہونا

سزا پائی ہے بے گناہی کی میں نے

سو واجب ہے اب تو گنہگار ہونا

پابند غم الفت ہی رہے گو درد دہنداں اور سہی

 پابندِ غمِ الفت ہی رہے گو درد دہنداں اور سہی

اشکوں کی روانی تھم نہ سکی آنکھوں کے تھے ارماں اور سہی

آدابِ چمن انجام تو دے، گل سے نہ ہٹا تتلی کو صبا

الفت کی حیا محفوظ رہے گو تجھ میں ہوں طوفاں اور سہی

ہو سعئ کرم غیروں پہ اگر، اپنوں پہ مذاق عام نہ ہو

ہم راہ میں ہیں ٹھوکر ہی تو دے منزل کے ہوں شایاں اور سہی

رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے

عارفانہ کلام حمدیہ و نعتیہ کلام


رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے 

قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے

کرم کی ہو رہی ہے عام بارش 

زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے

منور نور ہستی سے تو یا رب 

دلوں کے آبگینے کر رہا ہے

سلام ہو حسین پر نبی کے نور عین پر

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امامؑ عالی مقام


سلام ہو حسینؑ پر نبیﷺ کے نورِ عین پر

سلام ہو سلام فاطمہؑ کے دل کے چین پر

سلام جس نے دینِ حق کو سر بلند کر دیا

سلام جس نے دے کے خونِ کربلا کو بھر دیا

سلام جس نے گھر کا گھر لُٹا دیا تھا شان سے

سلام جس نے عصرِ آخری ادا کی آن سے

دیار عشق میں محشر بپا تھا

 دیارِ عشق میں محشر بپا تھا 

کسی کی آنکھ سے آنسو گِرا تھا 

لگی تھی آگ سارے پانیوں میں 

کلی نے قطرۂ شبنم چُھوا تھا 

گِرا طوفاں کے آگے بے بسی سے 

ضرورت سے شجر اونچا ہُوا تھا

زلف سرکار سے جب چاند چمکتا ہو گا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


زلفِ سرکارؐ سے جب چاند چمکتا ہو گا

مہر بھی دیکھ کے آنکھوں کو جھپکتا ہو گا

رشک سے قطرۂ شبنم اسے تکتا ہو گا

چشمِ سرکارؐ سے آنسو جو چھلکتا ہو گا

میرے سرکارؐ جہاں سے بھی گزرتے ہوں گے

راستہ خلد کی خوشبو سے مہکتا ہو گا

دین نبی کی آن بچائی حسین نے

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امامؑ عالی مقام


دینِ نبؐی کی آن بچائی حسؑین نے

نوکِ سِناں پہ رات بِتائی حسؑین نے

کُھل کر یزید سارے ہی میداں میں آ گئے

جب جب صدائے حق بھی لگائی حسؑین نے

نقشہ تمام جنگ کا تب ہی بدل گیا

اکبرؑ کی لاش جِیسے اٹھائی حسؑین نے

دین محمدی کا جواں ہے شجر عمر

 عارفانہ کلام منقبت سلام بر سیدنا عمرؓ


دینِ محمدیﷺ کا جواں ہے شجر عمرؓ

سرکارِ دو جہاںﷺ کی دعا کا اثر عمرؓ

ہیبت سے جس کی جائے لرز دشمنوں کی جاں

دیکھا نہیں کسی نے ہے ایسا نڈر عمرؓ

اسلام کے چمن میں ہیں پھل پھول سب مگر

جس کا ہو شیریں ذائقہ ہے وہ ثمر عمرؓ

مدینے کی محبت ہی مرے دل کا ہے سرمایہ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


مدینے کی محبت ہی مِرے دل کا ہے سرمایہ

جو ان کی یاد میں گزرا وہ پل میرا ہے سرمایہ

نبی پاکؐ کی الفت ہی اک مومن کی دولت ہے

نبی پاکؐ کا ہی عشق مومن کا ہے سرمایہ

نبیؐ کی بات کرتے ہیں نبیؐ کا ذکر کرتے ہیں

یقیں ہے اس سے نیک اعمال کا بڑھتا ہے سرمایہ

چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تیرا ہمسفر نہ ٹھہرے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تیرا ہمسفر نہ ٹھہرے

تِراﷺ حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے

تُو سایۂ حق پہن کے آیا، ہر اک زمانے پہ تیرا سایہ

نظر تِری ہر کسی پہ لیکن کسی کی تجھ پر نظر نہ ٹھہرے

لبوں پہ اِیاکَ نستعیں ہے اور اس حقیقت پہ بھی یقیں ہے

اگر تِرے واسطے سے مانگوں کوئی دعا بے اثر نہ ٹھہرے

جب دین مصطفیٰ کا مرے گھر میں آ گیا

 حمد باری تعالیٰ


جب دین مصطؐفیٰ کا مِرے گھر میں آ گیا

ایمان کا سرور بھی پیکر میں آ گیا

کعبے کو دیکھتے ہی طبیعت بہل گئی

جینے کا حوصلہ دلِ مضطر میں آ گیا

سب کچھ دیا خدا نے، کبھی بھی نہ یہ کہا

"دستک دئیے بغیر مِرے گھر میں آ گیا"

Thursday 25 November 2021

نام احمد سے یہاں جس کو محبت ہو گی

 نعت شریف


نام احمدﷺ سے یہاں جس کو محبت ہو گی

ربِ کعبہ کو فقط اس سے ہی قربت ہو گی

مرحبا صلے علی کی ہیں صدائیں لب پر

روزِ محشر میں یہی ورد ضمانت ہو گی

نعت پڑھتے ہوئے پہنچوں جو میں شہرِ طیبہ

اے خدا! کب یہ گنہ گار کی قسمت ہو گی

پلکوں پہ آ کر لرزے آنسو

 پلکوں پہ آ کر لرزے آنسو 

آہ, کیا سوچ کر ٹھہرے آنسو 

دل کے جن کو سمجھا تھا پتھر 

آنکھوں میں ان کی دیکھے آنسو 

جھانکا تھا اک یاد نے ماضی سے 

اور تنہائی میں بہنے لگے انسو

فکر و فن کے چہرے پر بے حسی کا عالم ہے

 فکر و فن کے چہرے پر بے حسی کا عالم ہے

آدمی پریشاں ہے،۔ زندگی بھی برہم ہے

چشمِ مےگساراں کیوں اس طرح سے پُرنم ہے

کیا نظامِ مے خانہ ان دنوں بھی برہم ہے

کیوں مِرے فسانے میں ان کا ذکر مبہم ہے

جن کی بے وفائی کا ہر قدم پہ ماتم ہے

سفر طویل ہے میرا ہمسفر کوئی بھی نہیں

 سفر طویل ہے میرا ہمسفر کوئی بھی نہیں

سر و سامان نہیں چارہ گر کوئی بھی نہیں

ہر ایک چہرے پہ چہرہ ہر ایک بات میں بات

ہے ایسے شہر میں جینا ہنر کوئی بھی نہیں

یوں بے سبب نہیں مرتا کوئی کسی کے لیے

محبتوں کا سوداگر بشر کوئی بھی نہیں

شام ملال حسرت ناکام اس کے نام

 شامِ ملال حسرتِ ناکام اس کے نام

اے شامِ انتظار! تجھے شام کر دیا

زنداں کے در کھلیں گے گریباں کے سب رفو

جب بھی فلک نے آیت و الہام کر دیا

مہر و وفا کی شاخ پہ پھر رنگِ شام نے

رخسار و لب کے نام پہ ہنگام کر دیا

ہونا ہی چاہتا ہے کہانی کا اختتام

 ہونا ہی چاہتا ہے کہانی کا اختتام

دریا کی تند تیز روانی کا اختتام

کب تم مِٹاؤ گے مِری تنہائیوں کا دکھ

کب ہو گا میرے دردِ نہانی کا اختتام

جِتنا سمیٹنا ہے ہمیں تم سمیٹ لو

ہونے لگا ہے عہدِ جوانی کا اختتام

گلے سے رات کے ایسے لگی چراغ کی لو

 گلے سے رات کے ایسے لگی چراغ کی لَو

گماں ہُوا کے بچھڑنے لگی چراغ کی لو

ہوا کے ساتھ دِیے کی بھی سانس چلتی ہے

ہوا رُکی تو لَرزنے لگی چراغ کی لو

تمہاری آنکھ کی تعریف کیا چراغ سے کی

تمہاری آنکھ سے جلنے لگی چراغ کی لو

تمہاری یاد میں ایسے بھی دن گزارے ہیں

 تمہاری یاد میں ایسے بھی دن گزارے ہیں

کہ بار بار تمہیں بس تمہیں پکارے ہیں

پرائے خیر پرائے ہیں اُن کا کیا شکوہ

ہمارے اپنے ہی دشمن بنے ہمارے ہیں

ہمارا جو بھی کرو اب تمہاری مرضی ہے

کہ ہم ہمارے نہیں اب تو ہم تمہارے ہیں

سنگ کو موم بنانے کا ہنر جانتا ہوں

 سنگ کو موم بنانے کا ہنر جانتا ہوں

حدِ ادراک سے آگے کا سفر جانتا ہوں

یہ مِرے یار کی نظروں کی عطا ہے مجھ پر

پسِ دیوار جو ہوتی ہے نظر، جانتا ہوں

ہر کسی شعر پہ دیتا نہیں میں داد کبھی

دل سے نکلیں ہوئی باتوں کا اثر جانتا ہوں

اس کی باتوں کو دل پہ لینا چھوڑ دیا ہے جب سے

 اس کی باتوں کو دل پہ لینا چھوڑ دیا ہے جب سے

سحر یقین مانو ہم بہت خوش رہتے ہیں تب سے

اپنی ہستی سے غرض ہے اپنی مستی میں مگن

اب تو ہر دم خلوت ہی مانگتے ہیں ہم اس رب سے

دھوکہ کسی کے ملنے کا، نہ غم کوئی بچھڑنے کا

ایسے مزاج بھی بدلتے ہیں سحر کبھی سبب سے

نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشکبار اب تک

 نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشکبار اب تک

مِری بے بسی پہ بھی ہے مجھے اختیار اب تک

مِرے باغِ دل پہ آخر یہ بہار بھی ستم ہے

جو گلاب ہم نے بوئے وہ ہیں خار دار اب تک

کوئی آس مجھ کو روکے تِری جستجو سے کافر

میں اگرچہ ہو چکا تھا کبھی شرمسار اب تک

آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے

 آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے

جب دل حریفِ آتش قہر و عتاب تھا

جاں دوستوں کی چارہ گری سے لبوں پہ تھی

سر دشمنوں کی سنگ زنی سے عذاب تھا

دامن سگانِ کوئے محبت سے تار تار

چہرہ خراشِ دستِ جنوں سے خراب تھا

بات کیا ہے اپنا ہی خوں جلاتے رہتے ہو

 بات کیا ہے اپنا ہی خوں جلاتے رہتے ہو

کیا کسی کی یاد میں، تلملاتے رہتے ہو

تم کو کس کی جستجو کھینچ کر لے جاتی ہے

آج کل ویرانوں میں آتے جاتے رہتے ہو

کون ہے جس کا غم تم کو کھائے جاتا ہے

کون ہے وہ جس کا ماتم مناتے رہتے ہو

عجیب بات ہے دل ضابطے میں کوئی نہیں

 عجیب بات ہے دل ضابطے میں کوئی نہیں

ابھی نہ عشق ہوا، حادثے میں کوئی نہیں

ورق ورق پہ ہو تحریر صرف تُو ہی تُو

کتاب دل کے ابھی حاشیے میں کوئی نہیں

بجھے بجھے سے ستارے، نہ چاندنی نہ چراغ

شبِ فراق تِرے رت جگے میں کوئی نہیں

دینے لگا سرور یہ تنہائیوں کا کھیل

 دینے لگا سرور یہ تنہائیوں کا کھیل

بھایا ذرا نہ ہم کو پذیرائیوں کا کھیل

جس رات میں نہ چاند، نہ تارے تھے بام پر

بہلا رہا تھا دل مِرا، پرچھائیوں کا کھیل

سچ پر سفید جھوٹ کا ہونے لگا گماں

کھیلا کچھ ایسا جھوٹ نے سچائیوں کا کھیل

راس ہے درد مجھے تیر اٹھا لائے تھے

 راس ہے درد مجھے تیر اٹھا لائے تھے

میرے زخموں کی وہ تدبیر اٹھا لائے تھے

ایک دم پھیل گیا دود مِرے کمرے میں

یار میرے مِری تحریر اٹھا لائے تھے

میں نے جب پوچھا کہاں خون اگلتی ہے زمیں

بس کہ جلتا ہوا کشمیر اٹھا لائے تھے

ایک دیپک بھی اگر رات سے لڑ سکتا ہے

 ایک دیپک بھی اگر رات سے لڑ سکتا ہے

آدمی وقت سے، حالات سے لڑ سکتا ہے

اپنا ایمان ہے یہ کربلا کے پیشِِ نظر

کوئی بدذات ہی سادات سے لڑ سکتا ہے

کبھی موقع نہ دیا اس کو خفا ہونے کا

بھانپ لیتا ہوں وہ اِس بات سے لڑ سکتا ہے

پونم کی روشنی میں تاج محل بے حد اکیلا

تاج محل


پونم کی روشنی میں

تاج محل

کمال کی سرحد کے اس پار

بے حد اکیلا

اور بہت اداس

جیسے کوئی بلا کی حسینہ

جیت کر ہار کیسے ہوتی ہے

 ایوارڈ


آ تمہیں یہ بتاتا ہوں آج

جیت کر ہار کیسے ہوتی ہے

اپنے سچے خلوص سے مجھ کو

اپنی بانہوں میں تھام لینا تم

اپنی سچی وفائیں سونپ کے پھر

حیات دی تو اسے غم کا سلسلہ بھی کیا

 حیات دی تو اسے غم کا سلسلہ بھی کیا

قضا کے ساتھ قدر کو مِری سزا بھی کیا

اسی نے در بہ دری کو نئی تلاش بھی دی

برا تو اس نے کیا ہی مگر بھلا بھی کیا

بغیر مانگے ہی دینا ہے شان مولائی

مِرا وقار بھی رکھا مجھے عطا بھی کیا

پھر وہی خانۂ برباد ہمارے لیے ہے

 پھر وہی خانۂ برباد ہمارے لیے ہے

شہر غرناطہ و بغداد ہمارے لیے ہے

جھیلنا ہے ہمیں پھر کرب فراموشی کا

پھر وہی سلسلۂ یاد ہمارے لیے ہے

نیند کے شہر طلسمات مبارک ہوں تمہیں

جاگتے رہنے کی افتاد ہمارے لیے ہے

یوں تو ملنے کو بہت اہل کرم ملتے ہیں

 یوں تو ملنے کو بہت اہلِ کرم ملتے ہیں

بے غرض ہوتے ہیں جو لوگ وہ کم ملتے ہیں

کون کہتا ہے کہ بازی گر نم ملتے ہیں

مسکرا کر غمِ حالات سے ہم ملتے ہیں

ذوق سجدوں کا مچل اٹھتا ہے پیشانی میں

جس جگہ پہ بھی تِرے نقشِ قدم ملتے ہیں

اے گل خزاں کا وقت بھی کچھ تو شمار کر

 اے گل خزاں کا وقت بھی کچھ تو شمار کر

پھر اس کے بعد شوق سے فکرِ بہار کر

دریائے عشق کا بڑا الٹا مزاج ہے

پہلے تو سیکھ ڈوبنا پھر اس کو پار کر

صحرا نواز ہے تِرا محسن تو کیا ہوا

اے دل تو تشنگی کو ذرا ہوشیار کر

راضی بہ قضا ہوں مری قسمت ہے مقرر

 راضی بہ قضا ہوں، مِری قسمت ہے مقرر

یعنی مِری تقدیر کا اچھا ہے مقدر

اچھا ہے کہ ہے موج میں فرعونِ زمانہ

فرعون ہوا کرتے ہیں غرقابِ سمندر

جان و زر اسی کے تھے، خریدے بھی اسی نے

دے کر ہمیں جنت جہاں غم ہو گا نہ کچھ ڈر

کتنا مشکل ہے یہاں صاحب ایماں ہونا

 کتنا مشکل ہے یہاں صاحبِ ایماں ہونا

"آدمی کوبھی میسر نہیں انساں ہونا"

وہ تو عابد بھی تھا زاہد بھی تھا جنات بھی تھا

کیا ضروری تھا اس ابلیس کا شیطاں ہونا

مدرسہ جا کے ریاضت کا ہنر بھی سیکھیں

اتنا آسان نہیں حافظِ قرآں ہونا

صد شکر کہ ہے لب پہ رواں نعت نبی کی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


صد شکر کہ ہے لب پہ رواں نعت نبیؐ کی

ورنہ میں کہاں اور کہاں نعت نبیؐ کی

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

اک میں ہی نہیں ان کی محبت کے اثر میں

پڑھتا ہے یہ سارا ہی جہاں نعت نبیؐ کی

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

دو جگ میں محمد سا غمخوار نہیں ملتا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


پیہم تو پرے ٹھہرا، اک بار نہیں ملتا

اس حسنِ مجسم سا شہکار نہیں ملتا

وہ سینہ مجھے یارو! مومن کا نہیں لگتا

جس سینے میں دل انؐ کا حُبدار نہیں ملتا

اُمت کے لیے روئے راتوں کو مصلّے پہ

دو جگ میں محمدﷺ سا غمخوار نہیں ملتا

Wednesday 24 November 2021

یہی ہے آرزوئے دل دیار مصطفیٰ دیکھوں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


یہی ہے آرزوئے دل دیارِ مصطفیٰؐ دیکھوں

فراغِ سبز گنبد میں قیامِ مجتبیِٰ دیکھوں

شعورِ چشم لائی ہے اٹھا کر ہحرِ ہجراں سے

درِ ایجاب پر پُر نم متاعِ التجا دیکھوں

اسے رستہ سُجھائیں گی فضائیں شہرِ آقاؐ کی

کہاں تک آسمانوں میں بھٹکتی ہے دعا دیکھوں

یا رب لب خموش کو ایسا جمال دے

 دعائیہ کلام


یا رب لبِ خموش کو ایسا جمال دے​

جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے​

سوزِ درونِ قلب کو اتنا کمال دے​

جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے​

پردے ہٹا، دکھا دے تجلی سے شش جہات​

پھر مطمئن وجود کو روحِ غزال دے

موڑ لو دل کو مدینے کی طرف

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


موڑ لو دل کو مدینے کی طرف

اب چلو یارو! مدینے کی طرف

شوقِ بے پایاں سے جو لرزاں‌ ہوں

لے چلو مجھ کو مدینے کی طرف

حجِ بیت اللہ سے فارغ ‌ہوئے

آؤ اب دوڑو مدینے کی طرف

یارب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا

محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا

جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری

جب تک زباں ہے منہ میں‌ جاری ہو نام تیرا

ایمان کی کہیں گے؛ ایمان ہے ہمارا

احمدﷺ رسول تیرا، مصحف کلام تیرا

آنکھ سے اشک گرا اشک سے تصویر ہوئی

 آنکھ سے اشک گرا، اشک سے تصویر ہوئی

یوں زمانے میں مِرے رنج کی تشہیر ہوئی

پہلے پہلے تو فقط عشق ہُوا کرتا تھا

یہ اُداسی تو بہت بعد میں تعمیر ہوئی

مجھ کو معلوم ہے یا میرا خدا جانتا ہے

کِن وسائل سے مِرے خواب کی تعبیر ہوئی

تیرا خیال ہے اب چشم تر کا زاویہ دیکھ

 تیرا خیال ہے، اب چشمِ تر کا زاویہ دیکھ

تیرے بغیر بھی زندہ ہوں، میرا حوصلہ دیکھ

اِدھر ستم کی ہوا، حوصلوں کے دِیپ اُدھر

میانِ باطل و حق، ہے بپا، جو معرکہ دیکھ

دلوں کے کھیل میں رُسوائی بھی ہے، غم بھی ہیں

یہ پہلے سوچ لے، پھر کر کوئی معاہدہ دیکھ

کس جگہ جاتا ہے اور کون سے در جاتا ہے

 کس جگہ جاتا ہے اور کون سے در جاتا ہے

تیرے در سے جو پلٹ آئے کدھر جاتا ہے

منظرِ عام پہ آتا ہے تو ڈر جاتا ہے

اشک میرا مِرے اندر ہی بکھر جاتا ہے

کیا ہوا چھوڑ کہ ہر بار اگر جاتا ہے

دو گھڑی مجھ سے مگر بات تو کر جاتا ہے

غم سے آزاد نہ کیوں غم کے یہ مارے ہوں گے

 غم سے آزاد نہ کیوں غم کے یہ مارے ہوں گے

کوئے جاناں کے کسی روز نظارے ہوں گے

دل نہ سمجھا مِری فریاد مخالف ہی رہا

لاکھ سمجھایا محبت میں خسارے ہوں گے

کہکشاؤں میں تو دنیا ہی نئی دیکھی ہے

ہم سمجھتے تھے کہ بس چاند ستارے ہوں گے

اٹھ کے پہلو سے کیا گیا کوئی

 اٹھ کے پہلو سے کیا گیا کوئی

دل کی دھڑکن بڑھا گیا کوئی

ایک ہلچل مچا گیا کوئی

حشر دل میں اٹھا گیا کوئی

چار اشکوں میں چند آہوں میں

اپنی بیتی سنا گیا کوئی

ابر ہی ابر ہے برستا نئیں

 ابر ہی ابر ہے، برستا نئیں

اب کے ساون تمہارے جیسا نئیں

خواب اور سینت کر رکھیں آنکھیں

ان سے آنسو تو اک سنبھلتا نئیں

گھومتی ہے زمین گرد مِرے

پاؤں اٹھتے ہیں رقص ہوتا نئیں

یادیں حملہ آور تھیں کتنی رات اداسی تنہا میں

 یادیں حملہ آور تھیں کتنی رات، اداسی، تنہا میں

دل تل تل کر کے ٹوٹا ہر لمحہ خود سے جوجھا میں

جانے کس کو ڈھونڈھ رہا ہوں، جانے کس کی ہے یہ کھوج

سُونی آنکھیں، بال بکھیرے، ہر دروازے رُکتا میں

نفرت ہو یا پیار ہو یا دوری بس تجھ سے رشتہ ہو

جیسے چاہے مجھے برت لے تیرا، کیول تیرا میں

جستجو کے کسی جہان میں ہے

 جستجو کے کسی جہان میں ہے

دل پرندہ ابھی اڑان میں ہے

میں اسے دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو

صرف آئینہ درمیان میں ہے

اس کا چہرہ ہے اب بھی آنکھوں میں

اس کی آواز اب بھی کان میں ہے

جو پیار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو

 جو پیار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو

اقرار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو

اس کی تلاش دل سے جو اپنے قریب ہے

بے کار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو

اتنی بڑی خدائی میں الفت کی بات بس

دو، چار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو

میرا پیش منظر کروکھیشتر کا میدان

 تئیسواں اشلوک


میرا پیش منظر کروکھیشتر کا میدان

سامنے صف آرا ہیں

میرے اپنے میرے لاڈلے

کمانیں کَسے

تیروں کا رخ میری جانب کیے

درد و دارو کے تخیل کا جھمیلا شاعر

 درد و دارو کے تخیل کا جھمیلا شاعر

فکر کے دشت میں پلتا ہے بگھیلا شاعر

نسل معدوم تھی آشفتہ سروں کی جب ہی

عرش سے رب نے سرِ خاک دھکیلا شاعر

درد زادوں کے سکوتوں کی وضاحت کر کے

سو خرابوں کو رِجھاتا ہے اکیلا شاعر

یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے

 یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے

اک طرفہ تماشا ہے کہ درپیش مجھے ہے

میں پہلے تجھے چُھو کے گنہگار بنوں کیوں

جو حکم تجھے ہے وہی آدیش مجھے ہے

تجھ کو بھی میرے دیس کی حرمت کا ہو احساس

اس شرط پہ منظور تیرا دیش مجھے ہے

اک رات بہت روئی بہت آہ و فغاں کی

 اک رات بہت روئی، بہت آہ و فغاں کی

نیند آنکھ سے اوجھل تھی کسی غمزدہ ماں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی

حالت یہی ہوتی ہے سدا غم زدگاں کی

وہ ایک طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھی

یاد آنے لگی تھی اسے ایامِ جواں کی

تمام اجنبی چہرے سجے ہیں چاروں طرف

 تمام اجنبی چہرے سجے ہیں چاروں طرف

مِری بہشت میں کانٹے اگے ہیں چاروں طرف

لہو میں ڈوبے ہوئے دائرے ہیں چاروں طرف

میں کیسے جاؤں کہیں حادثے ہیں چاروں طرف

کتاب درد کی پڑھ کر سنا رہی ہے حیات

اور آنسوؤں کے فرشتے کھڑے ہیں چاروں طرف

نظر کی حد پہ چراغ ثبات جلتا ہے

 نظر کی حد پہ چراغِ ثبات جلتا ہے 

مِرا سراب مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

میں ایک وصل کا ٹُوٹا ہُوا ستارہ ہوں

فراق روز مِرا زائچہ بدلتا ہے

ضرور کوئی پرندہ اسیر ہے مجھ میں 

یہ دل جو نوبتِ پرواز کو مچلتا ہے

رہبر ملا نہ ہم کو کوئی رہنما ملا

 رہبر ملا نہ ہم کو کوئی رہنما ملا

رہزن صفت ہی جو بھی ملا ہمنوا ملا

ہر شخص بے حسی ہی کا اک آئینہ ملا

ہر روز اس نگر میں نیا سانحہ ملا

تم بے وفا ہوئے تو زمانہ ملا تمہیں

ہم با وفا ہوئے تو نیا عارضہ ملا