Thursday, 25 November 2021

دینے لگا سرور یہ تنہائیوں کا کھیل

 دینے لگا سرور یہ تنہائیوں کا کھیل

بھایا ذرا نہ ہم کو پذیرائیوں کا کھیل

جس رات میں نہ چاند، نہ تارے تھے بام پر

بہلا رہا تھا دل مِرا، پرچھائیوں کا کھیل

سچ پر سفید جھوٹ کا ہونے لگا گماں

کھیلا کچھ ایسا جھوٹ نے سچائیوں کا کھیل

رخ پر نقاب اپنے فرشتوں کی ڈال کر

ابلیس کھیلنے لگا اچھائیوں کا کھیل

غربت میں بھائی، بھائی سے نا آشنا ہوا

دولت نے خوب دیکھا شناسائیوں کا کھیل

کہنے لگے ہیں بن کہے، باتیں بڑی بڑی

آنے لگا ہے ہم کو بھی گہرائیوں کا کھیل

دہشت سے پھر وہ بچے کبھی کھیل ہی نہ پائے

ماں بہنیں جن کی ہو گئیں بلوائیوں کا کھیل


حنا رضوی

No comments:

Post a Comment