خود کو خود سے ہی بے خبر رکھا
تیری یادوں کو ہمسفر رکھا
زندگی دیکھ تیری چاہت میں
تیرے غم کو بھی معتبر رکھا
جس کی تصویر تھی مِرے دل میں
اس کے کوچے میں اپنا گھر رکھا
ہم سمجھتے ہیں آپ کا مطلب
اس لیے خود کو در بہ در رکھا
رہزنی کیوں نہ ہوں زمانے میں
جب کہ رہزن کو راہبر رکھا
جب کرم اس کا ہو گیا داؤد
اس کی چوکھٹ پہ اپنا سر رکھا
داؤد اسلوبی
No comments:
Post a Comment