Sunday, 28 November 2021

خود کو خود سے ہی بے خبر رکھا

 خود کو خود سے ہی بے خبر رکھا

تیری یادوں کو ہمسفر رکھا

زندگی دیکھ تیری چاہت میں

تیرے غم کو بھی معتبر رکھا

جس کی تصویر تھی مِرے دل میں

اس کے کوچے میں اپنا گھر رکھا

ہم سمجھتے ہیں آپ کا مطلب

اس لیے خود کو در بہ در رکھا

رہزنی کیوں نہ ہوں زمانے میں

جب کہ رہزن کو راہبر رکھا

جب کرم اس کا ہو گیا داؤد

اس کی چوکھٹ پہ اپنا سر رکھا


داؤد اسلوبی

No comments:

Post a Comment