Monday 29 November 2021

تیری اک اک یاد کو دل میں سمونے سے رہے

 تیری اک اک یاد کو دل میں سمونے سے رہے

خونِ دل میں انگلیاں اپنی ڈبونے سے رہے

چھیڑ دی جب شاعروں نے بات تیرے حسن کی

مدتوں کے جاگنے والے بھی سونے سے رہے

کیسے تجھ کو ہم دلائیں عشق کا اپنے یقیں

کیا ہوا جو اپنے دامن کو بھگونے سے رہے

جانتے ہیں، آپ نے ہم کو بھلایا، ٹھیک ہے

کوششوں کے بعد بھی ہم تجھ کو کھونے سے رہے

❤یاد وقتِ مرگ آیا؛ کچھ کمایا ہی نہیں❤

اس جہاں میں نیکیوں کے بیج بونے سے رہے

آج تک افسوس ہوتا ہے اسے احمد رئیس

لوگ کیسے میری کشتی کو ڈبونے سے رہے


احمد رئیس

No comments:

Post a Comment