تیری اک اک یاد کو دل میں سمونے سے رہے
خونِ دل میں انگلیاں اپنی ڈبونے سے رہے
چھیڑ دی جب شاعروں نے بات تیرے حسن کی
مدتوں کے جاگنے والے بھی سونے سے رہے
کیسے تجھ کو ہم دلائیں عشق کا اپنے یقیں
کیا ہوا جو اپنے دامن کو بھگونے سے رہے
جانتے ہیں، آپ نے ہم کو بھلایا، ٹھیک ہے
کوششوں کے بعد بھی ہم تجھ کو کھونے سے رہے
❤یاد وقتِ مرگ آیا؛ کچھ کمایا ہی نہیں❤
اس جہاں میں نیکیوں کے بیج بونے سے رہے
آج تک افسوس ہوتا ہے اسے احمد رئیس
لوگ کیسے میری کشتی کو ڈبونے سے رہے
احمد رئیس
No comments:
Post a Comment