دل جس میں بہل جائے وہ بستی بھی کہیں ہے
ہم درد کے ماروں کی تسلی بھی کہیں ہے
سنّاٹا نکلتا ہے در و بام سے اب تو
جیسی ہے مِرے گھر وہ اُداسی بھی کہیں ہے
ہم اہلِ جنوں کے لیے صحرا بھی نہیں اب
بستی کوئی دھرتی پہ ہماری بھی کہیں ہے
کچھ بندشیں اِس پار ہیں، کچھ بندشیں اُس پار
زنجیر کسی آنکھ کو دِکھتی بھی کہیں ہے
ایسا تو نہیں چھوڑ گیا ہو وہ رہائش
ہے گھر تو وہی، نام کی تختی بھی کہیں ہے
بنیاد ہے رشتوں کی ضرورت پہ دھری اب
کہتے ہیں جسے چاہ، وہ سچی بھی کہیں ہے
یادوں کی یہ مہکار ہے، مت پوچھیے اطہر
خوشبو ہے مگر رات کی، رانی بھی کہیں ہے
اطہر شکیل
No comments:
Post a Comment